جرمنی میں داعش کے نئے ارکان کی بھرتی، 18 سالہ نوجوان گرفتار
15 اکتوبر 2020
جرمن پولیس نے ایک ایسے اٹھارہ سالہ نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے، جو دہشت گرد تنظیم داعش کے لیے نئے ارکان اور حامیوں کی بھرتی کی کوشش میں تھا۔ ملزم یہ کوششیں سوشل میڈیا پر آن لائن چیٹ کے ذریعے کر رہا تھا۔
اشتہار
پولیس کے مطابق اس نوجوان کو شہر کولون میں مارے گئے ایک چھاپے کے دوران حراست میں لیا گیا۔ پولیس نے ملزم کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے متعدد مواقع پر دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے لیے نئے ارکان اور اس گروہ کے حمایتی بھرتی کرنے کی کوشش کی۔
داعش ماضی میں شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہ چکی ہے، جہاں اس شدت پسند تنظیم نے اپنے رہنما ابوبکر البغدادی کی قیادت میں اپنی ایک ریاست کے قیام کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ بعد کے چند برسوں میں داعش کو ان علاقوں سے زیادہ تر بے دخل کر دیا گیا تھا۔
اس تنظیم کی کئی ذیلی شاخیں اور اس کے بہت سے چھوٹے چھوٹے شدت پسند گروہ آج بھی مختلف ممالک میں زیر زمین موجود ہیں، جو وہاں درجنوں خونریز حملے بھی کر چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش بہت کمزور ہو چکی ہے مگر ابھی تک پوری طرح ختم نہیں کی جا سکی۔
'داخلی امن کے لیے خطرناک شدت پسند مسلمان‘
کولون میں حکام نے جمعرات پندرہ اکتوبر کے روز بتایا کہ اس نوجوان کی گرفتاری اس کے خلاف صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے دارالحکومت ڈسلڈورف میں صوبائی دفتر استغاثہ کی طرف سے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کے بعد عمل میں آئی۔ ملزم آن لائن چیٹ کے ذریعے زیادہ تر جرمن نوجوانوں سے رابطے کر کے انہیں داعش کا ہمدرد بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے آج ہی ڈسلڈورف میں ایک صوبائی عدالت میں پیش کر کے اس کا تفتیشی ریمانڈ بھی لے لیا گیا۔
جس نوجوان کو آج گرفتار کیا گیا، ویسے افراد کو قانون نافذ کرنے والے جرمن ادارے ایسے 'خطرناک مسلم شدت پسند‘ قرار دیتے ہیں، جو داخلی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔ ایسے شدت پسند عموماﹰ کوئی تجربہ کار دہشت گرد نہیں ہوتے، لیکن وہ اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے کسی بھی وقت براہ راست یا بالواسطہ طور پر شدت پسندانہ اور خونریز کارروائیوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔ جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایسے 'پرخطر شدت پسند مسلمانوں‘ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
م م / ع ت (ڈی پی اے)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔