ایک سرکردہ جرمن اقتصادی ادارے کے مطالعاتی جائزے کے نتائج کے مطابق یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں قریب دو تہائی مہاجرین کو غربت کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس جائزے کے نتائج بدھ 15 اکتوبر کو جاری کیے گئے۔
کسی بھی معاشرے میں غربت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آمدنی اخراجات کے لیے کافی ثابت نہیں ہوتیتصویر: picture alliance/Fotostand
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمن ادارہ برائے اقتصادی تحقیق (DIW) کی طرف سے کرائے گئے ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ ملک میں رہائش پذیر تقریباﹰ دو تہائی مہاجرین کو غربت کا شکار ہو جانے کے خطرات لاحق ہیں۔
ڈی آئی ڈبلیو کی اس اسٹڈی کے مطابق 2020ء میں یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت میں مقیم مہاجرین میں سے 70 فیصد کو غربت کے خطرے کا سامنا تھا۔ اس کے بعد کے دو برسوں میں صورت حال کچھ بہتر تو ہوئی، تاہم 2022ء میں، جس کے اعداد و شمار اس نئی اسٹڈی کا حصہ ہیں، یہ شرح کچھ بہتر ہو کر 63.7 فیصد ہو گئی۔
مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ تعداد بھی ملک میں رہائش پذیر مہاجرین اور پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد کا تقریباﹰ دو تہائی بنتی ہے۔
جرمن شہر ہینوور میں ایک سب وے اسٹیشن کی سیڑھیوں کے پاس رکھا ہوا ایک بے گھر باشندے کا سامانتصویر: Werner Bachmeier/imagebroker/IMAGO
غربت کی مالیاتی سطح پر تعریف کیا؟
جرمن انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس کے مطابق یہ بات بھی اہم ہے کہ مالیاتی حوالے سے غربت کی تعریف کیسے کی جاتی ہے۔ اس ادارے نے بتایا کہ نئی اسٹڈی میں بھی غربت کا شکار افراد کی تعریف ایسے انسانوں کے طور پر کی گئی، جو ملک میں کسی گھرانے کی اوسط ماہانہ آمدنی کے 60 فیصد سے بھی کم کماتے ہوں۔
اگر کوئی گھرانہ صرف ایک ہی فرد پر مشتمل ہو، تو 2022ء میں فی کس بنیادوں پر اوسط ماہانہ آمدنی 1419 یورو (یا 1650 ڈالر) کے برابر تھی۔ اس بنیاد پر جس مہاجر کی بھی فی کس ماہانہ آمدنی 851 یورو سے کم تھی، اسے غربت کا شکار سمجھا گیا۔
2015ء میں یورپ میں مہاجرین کے بحران کے دوران قریب ایک ملین مہاجرین جرمنی آئے تھےتصویر: Odd Andersen/AFP/Getty Images
ان نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی آئی ڈبلیو کی طرف سے بتایا گیا، ''تارکین وطن کے پس منظر کے حامل باشندوں، خاص کر مہاجرین میں ملکی فی کس اوسط سے کم آمدنی، اور غربت کا تناسب ملکی اوسط سے کہیں زیادہ ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ جرمن معاشرے میں تارکین وطن کے پس منظر کے بغیر باشندوں کی آبادی میں غربت کے تناسب میں گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے میں تقریباﹰ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘‘
جرمنی کی 83 ملین سے زائد کی مجموعی آبادی میں غیر مہاجر یا غیر تارکین وطن باشندوں میں غربت کے خطرے کی شرح کئی برسوں سے قریب 13 فیصد بنتی ہے۔
برلن میں ایک ٹرین اسٹیشن کی عمارت میں سویا ہوا ایک بے گھر شخصتصویر: Emmanuele Contini/IMAGO
جرمنی میں دیگر یورپی ممالک کے باشندوں کی مالی صورت حال
جرمن ادارہ برائے اقتصادی تحقیق کے اس جائزے کے مطابق جرمنی میں یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک کے جو باشندے آباد ہیں، ان میں ماہانہ فی کس آمدنی کی ملکی اوسط سے کم انکم کا سامنا تقریباﹰ 26 فیصد افراد کو ہے۔
ایسے یورپی باشندے تکنیکی طور پر مہاجرین یا تارکین وطن کے زمرے میں اس لیے نہیں آتے کہ وہ یورپی یونین کے عام شہریوں کو حاصل روزگار اور رہائش کی آزادیوں کے تحت کسی ایک رکن ملک سے جا کر کسی دوسرے رکن ملک میں آباد ہو جاتے ہیں۔ جرمنی میں تاہم ان کی آمدن کی سطح مقامی جرمن باشندوں کے مقابلے میں اکثر کم ہوتی ہے۔
ڈی آئی ڈبلیو کے جرمن لیبر مارکیٹ کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہر مارکوس گرابکا کے بقول، ''جرمنی میں گزشتہ چند برسوں میں خاص طور پر مہاجرین کو درپیش غربت کے خطرے میں جو کمی ہوئی ہے، اس کی وجہ ایسے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کا روزگار کی ملکی منڈی میں ماضی کے مقابلے میں بہتر انضمام ہے۔‘‘
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔