1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد نو سال میں دو گنا

12 مارچ 2023

جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد دو ہزار چودہ سے لے کر گزشتہ برس کے آخر تک کے عرصے میں دو گنا ہو گئی۔ پچھلے سال دسمبر کے اختتام پر ملک میں ایسے غیر مقامی افراد کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے انتیس ہزار بنتی تھی۔

Symbolfoto BAMF
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance

فرینکفرٹ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن ادارہ برائے شماریات کی طرف سے بتایا گیا کہ 2005ء سے لے کر 2013ء تک کے عرصے میں یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں ایسے افراد کی تعداد سالانہ اوسطاﹰ 13 ہزار اور 14 ہزار کے درمیان رہی تھی، جو مسلمہ طور پر کسی بھی ملک کے شہری نہ ہونے کی وجہ سے بےوطن تسلیم کیے گئے تھے۔

جرمنی سے پناہ کے ناکام متلاشی افراد کو ملک بدر کرنے کی دو تہائی کوششیں ناکام

لیکن 2014ء میں ملک میں بڑی تعداد میں مہاجرین، تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کی آمد کے ساتھ یہ تعداد مسلسل کافی زیادہ رہنے لگی تھی۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سال 2022ء کے اختتام پر جرمنی میں ایسے بے وطن انسانوں کی تعداد تقریباﹰ دو گنا ہو کر 29 ہزار 455 ہو چکی تھی۔

پچھلے سال کے اختتام پر ملک میں ایسے بے وطن انسانوں میں سے تقریباﹰ نصف (48 فیصد) ایسے تھے، جو پیدا تو شام میں ہوئے تھے مگر اب قانوناﹰ بے وطن ہیں۔

جرمن دفتر شماریات کے مطابق 2022ء کے آخر پر ملک میں جتنے بھی بے وطن انسان رجسٹرڈ تھے، ان میں سے تقریباﹰ ایک چوتھائی کی عمریں 18 سال سے کم تھیں اور وہ نابالغ تھے۔

تارکین وطن کی کشتی حادثے کا شکار، کم از کم 59 افراد ہلاک

پچھلے سال کے اختتام پر جرمنی میں مقیم بے وطن انسانوں میں سے 48 فیصد ایسے تھے، جو پیدا تو شام میں ہوئے تھے مگر اب قانوناﹰ بے وطن ہیںتصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance

بے وطن ہوتا کون ہے؟

اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ تعریف کے مطابق کوئی بھی انسان بے وطن اس وقت سمجھا جاتا ہے، جب کوئی بھی ملک اسے اپنا شہری تسلیم نہ کرے۔ کسی بھی انسان کی مہاجر یا تارک وطن کے طور پر بے وطن کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔

یورپی یونین میں پناہ کی درخواستیں، سات سال کی بلند ترین شرح

ان وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس فرد کے پاس اپنے کوئی سرکاری طور پر جاری کردہ دستاویزی شواہد مثلاﹰ شناختی کارڈ یا پیدائش کا سرٹیفیکیٹ وغیرہ نہ ہوں۔ لیکن عملی طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مختلف انسانوں کے ساتھ ان کی صنف کی بنیاد پر کیا جانے والا امتیازی سلوک بھی ان کی بے وطنی کا سبب بن سکتا ہے۔

جرمن دفتر شماریات کے مطابق، ''یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی عورتیں اپنی شہریت اپنے بچوں کو منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ والد یا تو متعلقہ بچے کی ولدیت تسلیم نہیں کرتا یا پھر نامعلوم ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ کہ کوئی بھی بچہ قانوناﹰ خود بخود بے وطن ہو جاتا ہے۔‘‘

فیکٹ چیک: یوکرینی مہاجرین کے بارے میں جھوٹی کہانیاں کیسے پھیلائی جاتی ہیں؟

پیدائش جرمنی میں، لیکن پھر بھی بے وطن

گزشتہ برس کے آخر تک جرمنی میں  جتنے بھی انسان بے وطن رجسٹر تھے، ان میں سے 4,860 ایسے تھے، جو پیدا تو جرمنی ہی میں ہوئے تھے، مگر ان کے والدین انہیں اپنی شہریت منتقل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ قبل ازیں 2014ء میں ایسے افراد کی تعداد 3,550 رہی تھی۔

پناہ کے متلاشی افراد کے موبائل فونز کی جرمن حکام کی طرف سے تلاشی، تنازعہ عدالت میں

جرمنی میں پیدا ہونے والے سبھی بچوں کو قانوناﹰ خود بخود ہی جرمن شہریت نہیں مل جاتی۔ والدین میں سے کوئی ایک جرمن شہری ہو تو ایسا لازمی ممکن ہوتا ہے۔ ایسا اس صورت میں بھی ممکن ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کے والدین میں سے کم از کم کوئی ایک آٹھ سال سے ملک میں قانونی طور پر مقیم ہو، یا اسے جرمنی میں لامحدود عرصے کے لیے رہائش کا حق حاصل ہو، یا پھر وہ کسی اور طرح کی خصوصی رہائشی حیثیت کا حامل ہو۔

ان قانونی امکانات کا اطلاق مگر بے وطن انسانوں پر نہیں ہوتا۔ وہ اس حیثیت میں جرمنی میں اپنا قیام جاری تو رکھ سکتے ہیں مگر قانونی دستاویزی سطح پر بے وطن ہی رہتے ہیں۔

م م / ک م (ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں