جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد نو سال میں دو گنا
12 مارچ 2023
جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد دو ہزار چودہ سے لے کر گزشتہ برس کے آخر تک کے عرصے میں دو گنا ہو گئی۔ پچھلے سال دسمبر کے اختتام پر ملک میں ایسے غیر مقامی افراد کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے انتیس ہزار بنتی تھی۔
اشتہار
فرینکفرٹ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن ادارہ برائے شماریات کی طرف سے بتایا گیا کہ 2005ء سے لے کر 2013ء تک کے عرصے میں یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں ایسے افراد کی تعداد سالانہ اوسطاﹰ 13 ہزار اور 14 ہزار کے درمیان رہی تھی، جو مسلمہ طور پر کسی بھی ملک کے شہری نہ ہونے کی وجہ سے بےوطن تسلیم کیے گئے تھے۔
لیکن 2014ء میں ملک میں بڑی تعداد میں مہاجرین، تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کی آمد کے ساتھ یہ تعداد مسلسل کافی زیادہ رہنے لگی تھی۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سال 2022ء کے اختتام پر جرمنی میں ایسے بے وطن انسانوں کی تعداد تقریباﹰ دو گنا ہو کر 29 ہزار 455 ہو چکی تھی۔
پچھلے سال کے اختتام پر ملک میں ایسے بے وطن انسانوں میں سے تقریباﹰ نصف (48 فیصد) ایسے تھے، جو پیدا تو شام میں ہوئے تھے مگر اب قانوناﹰ بے وطن ہیں۔
جرمن دفتر شماریات کے مطابق 2022ء کے آخر پر ملک میں جتنے بھی بے وطن انسان رجسٹرڈ تھے، ان میں سے تقریباﹰ ایک چوتھائی کی عمریں 18 سال سے کم تھیں اور وہ نابالغ تھے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ تعریف کے مطابق کوئی بھی انسان بے وطن اس وقت سمجھا جاتا ہے، جب کوئی بھی ملک اسے اپنا شہری تسلیم نہ کرے۔ کسی بھی انسان کی مہاجر یا تارک وطن کے طور پر بے وطن کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ان وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس فرد کے پاس اپنے کوئی سرکاری طور پر جاری کردہ دستاویزی شواہد مثلاﹰ شناختی کارڈ یا پیدائش کا سرٹیفیکیٹ وغیرہ نہ ہوں۔ لیکن عملی طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مختلف انسانوں کے ساتھ ان کی صنف کی بنیاد پر کیا جانے والا امتیازی سلوک بھی ان کی بے وطنی کا سبب بن سکتا ہے۔
جرمن دفتر شماریات کے مطابق، ''یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی عورتیں اپنی شہریت اپنے بچوں کو منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ والد یا تو متعلقہ بچے کی ولدیت تسلیم نہیں کرتا یا پھر نامعلوم ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ کہ کوئی بھی بچہ قانوناﹰ خود بخود بے وطن ہو جاتا ہے۔‘‘
گزشتہ دو دہائیوں میں تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور اقتصادی مسائل کے باعث دنیا کے مختلف خطوں سے امیر ممالک کی طرف ہجرت جاری ہے۔ تارکین وطن کے ساتھ پیش آنے والے کچھ ہلاکت خیز ترین واقعات
تصویر: Gareth Fuller/PA/picture alliance
امریکہ، ایک ٹرک سے 50 تارکین وطن کی لاشیں برآمد
اس سال 27 جون کو امریکہ کے شہر سان انتونیو میں ایک لاوارث ٹرک میں سوار پچاس تارکین وطن ہلاک ہو گئے۔ انہیں شدید گرمی میں ٹرک کے اندر چھوڑ دیا گیا تھا۔
تصویر: Eric Gay/AP Photo/picture alliance
برطانیہ پہنچنے کی خواہش جان لیوا ثابت ہوئی
23 اکتوبر 2019ء کو ویتنام کے 39 تارکین وطن برطانیہ کے شہر ایسکس میں ایک ٹرک میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ اس واقعہ میں ملوث چار افراد کو قتل کے جرم میں سزا دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Grant
سان انتونیو کا دردناک حادثہ
23 جولائی 2017ء میں سان انتونیو کی شدید گرمی میں سپر مارکیٹ وال مارٹ کے احاطے میں پارک ایک ٹرک میں 8 تارکین وطن مردہ حالت میں ملے۔ دیگر دو بعد میں ہسپتال میں ہلاک ہو گئے۔ ٹرک کے ڈرائیور کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
تصویر: Reuters/R. Whitehouse
افریقی تارکین وطن کی ہلاکتیں
20 فروری 2017ء میں ایک شپنگ کنٹینر میں 13 افریقی تارکین وطن دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ کنٹینر لیبیا کے ایک شہر سے دوسرے شہر لے جایا جا رہا تھا۔ زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق مالی سے تھا۔ اس کنٹینر میں کل 69 تارکین وطن سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
ستر سے زائد ہلاکتیں
27 اگست 2015ء کو آسٹریا کی پولیس کو ایک لاوارث ٹرک ملا۔ اس ٹرک میں 71 تارکین وطن مردہ حالت میں موجود تھے۔ ہلاک شدگان میں آٹھ بچے بھی شامل تھے۔ ان تارکین وطن افراد کا تعلق افغانستان، شام اور عراق سے تھا۔ یہ ٹرک ہنگری سے آسٹریا پہنچایا گیا تھا۔
تصویر: Robert Jaeger/AFP
افغان مہاجرین کی پاکستان کے ذریعے مہاجرت کی کوشش
4 اپریل 2009ء کو جنوب مغربی پاکستان میں ایک کنٹینر میں 35 افغان تارکین وطن کی لاشیں ملیں۔ انتظامیہ کے مطابق اس کنٹینر میں ایک سو سے زائد افراد سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Gulfam
میانمار کے مہاجرین
9 اپریل 2008ء کو تھائی لینڈ سے ایک ایئرٹائٹ فریزر والے ٹرک سے 54 تارکین وطن افراد کی لاشیں ملیں۔ ان سب کا تعلق میانمار سے تھا۔
تصویر: AFP
ٹیکساس میں ہلاکتیں
14 مئی 2003ء کو 19 تارکین وطن جنوبی ٹیکساس سے ہوسٹن کی طرف روانہ تھے۔ اس دوران شدید گرمی کے باعث یہ افراد اسی ٹرک میں دم توڑ گئے۔
تصویر: William Luther/San Antonio Express-News/ZUMA/picture alliance
چینی تارکین وطن کی برطانیہ جانے کی کوشش
18 جون 2008ء کے روز 58 چینی تارکین وطن انگلینڈ کے بندرگاہی شہر ڈوور میں ٹرک کے اندر مردہ پائے گئے۔ ایک ڈچ ٹرک نے تارکین وطن کو بیلجیم سے برطانیہ پہنچایا تھا۔ اس حادثے میں دو افراد زندہ بھی بچ گئے تھے۔ ب ج/ ع ا (اے پی)
تصویر: Edward Crawford/Sopa/Zuma/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
پیدائش جرمنی میں، لیکن پھر بھی بے وطن
گزشتہ برس کے آخر تک جرمنی میں جتنے بھی انسان بے وطن رجسٹر تھے، ان میں سے 4,860 ایسے تھے، جو پیدا تو جرمنی ہی میں ہوئے تھے، مگر ان کے والدین انہیں اپنی شہریت منتقل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ قبل ازیں 2014ء میں ایسے افراد کی تعداد 3,550 رہی تھی۔
جرمنی میں پیدا ہونے والے سبھی بچوں کو قانوناﹰ خود بخود ہی جرمن شہریت نہیں مل جاتی۔ والدین میں سے کوئی ایک جرمن شہری ہو تو ایسا لازمی ممکن ہوتا ہے۔ ایسا اس صورت میں بھی ممکن ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کے والدین میں سے کم از کم کوئی ایک آٹھ سال سے ملک میں قانونی طور پر مقیم ہو، یا اسے جرمنی میں لامحدود عرصے کے لیے رہائش کا حق حاصل ہو، یا پھر وہ کسی اور طرح کی خصوصی رہائشی حیثیت کا حامل ہو۔
ان قانونی امکانات کا اطلاق مگر بے وطن انسانوں پر نہیں ہوتا۔ وہ اس حیثیت میں جرمنی میں اپنا قیام جاری تو رکھ سکتے ہیں مگر قانونی دستاویزی سطح پر بے وطن ہی رہتے ہیں۔
م م / ک م (ڈی پی اے)
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔