جرمنی میں رہنے والے غیر ملکیوں کی تعداد ایک کروڑ ہو گئی
شمشیر حیدر اے ایف پی
30 جون 2017
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی رجسٹر (اے زیڈ آر) کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 کے اختتام تک جرمنی میں آباد غیر ملکی شہریوں کی مجموعی تعداد دس ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔
اشتہار
سن 1967 میں جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی رجسٹر (اے زیڈ آر) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ وفاقی ادارہ اپنے قیام سے لے کر اب تک جرمنی میں آباد دوسرے ممالک کی شہریت رکھنے والے غیر ملکیوں کے اعداد و شمار جمع کر رہا ہے۔ اے زیڈ آر کے ریکارڈ کے مطابق جرمنی میں بسنے والے غیرملکیوں کی یہ اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد محض ایک برس کے اندر اندر جرمنی میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد میں پندرہ لاکھ مزید نفوس کا اضافہ ہوا جب کہ سن 2016 میں بھی مزید پانچ لاکھ غیر ملکی جرمنی آ کر آباد ہوئے۔ یوں صرف ان دو برسوں کے دوران جرمنی میں دو ملین (قریب تئیس فیصد) مزید غیرملکیوں کا اضافہ ہوا۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
وفاقی رجسٹر میں جرمن شہریت حاصل کر لینے والے غیرملکیوں کو شمار نہیں کیا جاتا۔ سن 2015 میں بھی جرمنی میں دو لاکھ تیس ہزار غیر ملکیوں کو ملکی شہریت دے دی گئی جس کے بعد انہیں اے زیڈ آر کی فہرست سے نکال دیا گیا۔
ان دوبرسوں کے دوران جرمنی میں آباد ہونے والے افراد عمریں، جنس اور ازدواجی حیثیت ماضی میں جرمنی آنے والے افراد کے مقابلے میں کافی مختلف ہے، جس کے باعث ملک میں غیر ملکیوں سے متعلق ریکارڈ میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
مثال کے طور پر ان اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں آباد غیر ملکیوں کی اوسط عمر اب کم ہو کر قریب اڑتیس برس رہ گئی ہے جب کہ دو سال قبل غیر ملکیوں کی اوسط عمر چالیس برس تھی۔ اسی طرح جرمنی میں غیر ملکیوں کے قیام کی اوسط بھی سترہ برس سے کم ہو کر پندرہ برس ہو گئی ہے۔
مہاجرین کے بحران کے دوران جرمنی آنے والوں میں بڑی تعداد تنہا مردوں کی تھی اسی وجہ سے ملک میں مجموعی طور پر غیر ملکی شہریوں میں مردوں کی شرح بھی اب باون سے بڑھ کر چون فیصد ہو گئی ہے۔ اسی طرح کم عمروں اور غیر شادی شدہ افراد کی شرح میں بھی تین فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ شادی شدہ غیر ملکیوں کی شرح تین فیصد کم ہو کر 42.7 فیصد رہ گئی ہے۔
دوسری جانب جرمن وفاقی ریاستوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو کچھ زیادہ تبدیلیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ ماضی کی طرح اب بھی سب سے زیادہ (پچیس لاکھ) غیر ملکی نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (این آر ڈبلیو) میں مقیم ہیں۔
وفاقی جرمن ریاست میکلن بُرگ ویسٹرن پومیرینیا میں قریب ستر ہزار غیر ملکی رہ رہے ہیں، جو کہ باقی وفاقی ریاستوں کی نسبت سب سے کم تعداد ہے۔ تاہم باویریا میں غیر ملکی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اب یہ جرمن صوبہ اس حوالے سے چوتھے نمبر کی بجائے تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔