جرمنی میں ریل ڈرائیوروں کی یونین کا چھ روزہ ہڑتال کا اعلان
22 جنوری 2024
جی ڈی ایل کے مطالبات میں تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ورکروں کے کام کرنے کے اوقات کار میں کمی لانا شامل ہے۔ جرمن ریلوے کے محمکے کا کہنا ہے کہ یونین تنخواہوں میں اضافے کی ان کی پیشکش ٹھکرا چکی ہے۔
اشتہار
جرمنی میں ٹرین ڈرائیوروں کی اکثریت پر مشتمل جی ڈی ایل ٹریڈ یونین نے بدھ کے دن سے ملک بھر میں چھ روزہ ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ اس یونین کے اراکین میں ریل نیٹ ورک کے دیگر ملازمین بھی شامل ہیں۔
جی ڈی ایل کی جانب سے آج پیر کے روز جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ ہڑتال بدھ کی صبح دو بجے شروع ہوکر آئندہ پیر کی شام چھ بجے تک جاری رہے گی۔ جی ڈی ایل کی طرف سے کیا گیا یہ اعلان ان کی پہلے سے جاری ہڑتالوں کے سلسلے کا حصہ ہے تاہم اس مرتبہ اس ہڑتال کا دورانیہ پہلے کی ہڑتالوں کے مقابلے میں طویل ہے۔
جرمن ریل آپریٹر ڈوئچے بان (ڈی بی) نے جمعہ کے روز تنخواہوں میں اضافے کی ایک نئی پیشکش کے ساتھ یونین کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی تھی، جسے جی ڈی ایل نے مسترد کر دیا۔
اس یونین کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے، "اپنی تیسری اور قیاس کے مطابق بہتر پیشکش کے ساتھ ڈوئچے بان نے ایک بار پھر یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ عدم تعمیل اور تصادم کے اپنے سابقہ راستے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس میں مصالحت کے لیے آمادگی کا کوئی نشان نہیں ہے۔''
اشتہار
موجودہ تنازعہ میں چوتھی ہڑتال
نئی ہڑتال ڈی بی اور جی ڈی ایل کے مابین تنخواہوں پر موجودہ تنازعے کے دوران چوتھی ہڑتال ہوگی۔ جی ڈی ایل نے 2023 ٔکے آخر میں دو بڑی انتباہی ہڑتالوں کا انعقاد کیاتھا اور پھر جنوری کے شروع میں تین دن تک جاری رہنے والیایک اور ہڑتال کی تھی، جس کے سبب ریلوے خدمات کی فراہمی میں زبردست روکاوٹیں پیدا ہوئی تھیں ۔
یہاں تک کہ ڈی بی نے اس ماہ کے شروع میں عدالتی حکم امتناعی کے ذریعے ان ہڑتالوں کو روکنے کی ناکام کوشش بھی کی۔ڈوئچے بان کے ملازمین کے شعبے کے سربراہ مارٹن سیلر نے جمعہ کو جی ڈی ایل پر تنقید کرتے ہوئے دلیل دی کہ وہ ہڑتالوں کو آخری حربے کے طور پر نہیں بلکہ خود کو فروغ دینے کے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
تنخواہوں میں اضافے اور کام کے اوقات کار میں کمی کا مطالبہ
ڈی بی کے مطابق جی ڈی ایل کے لیے اس کی تازہ ترین پیشکش میں ملازمین کے لیے اگست سے اوسطاً 4.8 فیصد اور اپریل 2025 سے مزید پانچ فیصد اضافے کی پیشکش کی گئی تھی۔ ڈی بی نے کہا ہے کہ اس کی پیشکش میں افراط زر کے حساب سے معاوضے کی ادائیگی بھی شامل ہوگی، جو 32 ماہ کی مدت کے لیے طے کی جائے گی۔
ڈی بی کے مطابق 2026 سے شفٹوں میں کام کرنے والے ملازمین کو یہ اختیار بھی دیا جائے گا کہ وہ ہفتے میں اوسطاً 38 گھنٹے سے لے کر 37 گھنٹے تک کام کر سکتے ہیں یا اگر وہ اپنے کام کا بوجھ کم نہیں کرنا چاہتے تو اضافی تنخواہ وصول کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب جی ڈی ایل ملازمین کے لیے ٹیکس سے مستثنٰی ایک ماہ قبل اضافی550 یورو اور بارہ ماہ تک افراط زر کے معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ یونین معاوضے میں کسی تبدیلی کے بغیر شفٹ ورکرز کے اوقات کار کو 38 سے کم کر کے 35 گھنٹے تک کرنے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔
ڈی بی کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی نئے عملے کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور موجودہ ملازمین کے اوقات کار کو اس حد تک کم کرنے سے اہلکاروں کی کمی بڑھ جائے گی۔
ش ر / ع ت (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
جرمنی میں ہڑتال، روزمرہ زندگی متاثر
تصویر: picture-alliance/dpa
فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی عملے کی طرف سے جعمرات کے دن کی جانے والی ہڑتال کے باعث وہاں متعدد پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔ جس کی وجہ سے مسافروں کو پریشانی بھی ہوئی۔ ایک مسافر تھکن کی حالت میں ایئر پورٹ کے مسافر لاؤنج میں بیٹھا، ہڑتال ختم ہونے کا منتظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرنے والے ہڑتالیوں نے جمعرات کے دن دوپہر ایک بجے تک کام نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فرینکفرٹ ایئر پورٹ میں سکیورٹی چیک اِن گارڈز کے علاوہ ڈرائیورز، لوڈرز اور دیگر عملے نے بھی اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں کے مطابق فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر کل پندرہ سو افراد نے ہڑتال میں شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جمعرات کو جرمنی کے سات ہوائی اڈوں پر ہڑتال کی گئی۔ اگرچہ سب سے زیادہ متاثر فرینکفرٹ اور میونخ کے ہوائی اڈے ہوئے لیکن ہیمبرگ، ہینوور، ڈُسلڈورف، اشٹٹ گارٹ اور کولون/ بون ایئر پورٹس پر بھی معمول کی پروازیں متاثر ہوئیں۔
تصویر: Reuters
جمعرات کے دن اس ہڑتال کے موقع پر کولون/ بون ایئر پورٹ خاصا خالی خالی دکھائی دیا کیونکہ بہت سے مسافروں نے اس دن ہوائی اڈے کا رخ ہی نہ کیا۔ بہت سے مسافروں نے اس ہڑتال کے اثرات سے بچنے کے لیے یا تو ٹرین کا استعمال کیا یا پھر اپنی گاڑیاں استعمال کیں۔ کچھ مسافروں نے تو اپنے سفر کے منصوبوں کو منسوخ بھی کر دیا۔
تصویر: DW/N. Steudel
جرمنی کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین VerDi نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ حکومتی وفد کے ساتھ آئندہ ہفتے شروع ہونے والے مذاکرات میں وہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ویردی کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین بھی اقتصادی ترقی سے اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/N. Steudel
مزدور یونین تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ حکومت وفاقی اور میونسپل پبلک سیکٹر میں خدمات سرانجام دینے والے تقریبا 2.1 ملین ملازمین کی تنخواہوں میں 3.5 فیصد کا اضافہ کرے اور انہیں ماہانہ سو یورو کا بونس بھی دے۔
تصویر: DW/N. Steudel
کولون بون ایئر پورٹ کےترجمان والٹر رؤمر سرکاری ملازمین اور حکومت کے مابین پیدا ہونے والے لیبر تنازعات کے حل کے ماہرتصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کمیونیکیشن کے اس جدید دور میں ہڑتالوں سے اب لوگ ویسے متاثر نہیں ہوتے جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔
تصویر: DW/N. Steudel
فرانس کے دو تاجر جعمرات کی دوپہر تک واپس پیرس پہنچنا چاہتے تھے۔ تاہم فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی ایک پرواز کی منسوخی کے بعد وہ وہیں پھنس کر رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس میں ہونے والی ہڑتالوں کی وجہ سے یہ بدنظمی ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
تصویر: DW/N. Steudel
جرمنی میں جاری ہڑتالوں کے سلسلے سے صرف ایئر پورٹس ہی متاثر نہ ہوئے بلکہ متعدد شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ سے وابستہ اہلکاروں نے بھی کام بند کر دیا۔ ان میں بسوں اور مقامی سطح پر چلنے والی ٹرینوں کے ڈرائیورز بھی شامل تھے۔ یوں بون سمیت کئی شہروں کے رہائشی بھی اس ہڑتال سے شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ہڑتال کی گئی۔ تاہم وہاں ہڑتال کچھ مختلف تھی کیونکہ برلن میں کوڑا کرکٹ اٹھانے والے عملے نے کام کرنا بند کر دیا۔ یوں شہر کے رہائشیوں نے اس ’وارننگ ہڑتال‘ کے دوران شہر کی صفائی میں خود حصہ لیا۔ اگر ٹریڈ یونین تنظیموں اور حکومتی وفود کے مابین جاری مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو صورتحال ایک مرتبہ پھر بگڑ سکتی ہے۔