جرمنی میں ریکارڈ کمی کے باوجود سالانہ سوا لاکھ سائیکلیں چوری
19 اپریل 2022
جرمنی میں گزشتہ برس سائیکل چوری کے واقعات میں ریکارڈ کمی کے باوجود تقریباﹰ سوا لاکھ سائیکلیں چوری ہوئیں۔ جرمن انشورنس کمپنیوں کی ملکی تنظیم کے مطابق چوری کے ان واقعات کے باعث نقصان کی کُل مالیت ایک سو دس ملین یورو رہی۔
اشتہار
یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں سائیکل سواری ایک عوامی شوق ہے اور موٹر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی طرح عام طور پر سائیکلوں کی بھی انشورنس کروائی جاتی ہے۔ انشورنس کا کام کرنے والی مختلف جرمن کمپنیوں کی وفاقی تنظیم جی ڈی وی کی طرف سے منگل انیس اپریل کے روز برلن میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس پورے ملک میں تقریباﹰ سوا لاکھ سائیکلیں چوری ہوئیں۔
اشتہار
ریکارڈ کمی کی وجہ کورونا کی وبا
یہ تعداد 2021ء میں 2020ء کے مقابلے میں ریکارڈ حد تک کم رہی۔ 2020ء میں پورے ملک میں ایک لاکھ دس ہزار ایسی سائیکلیں چوری ہوئی تھیں، جن کے مالکان نے ان سائیکلوں کی باقاعدہ انشورنس کروا رکھی تھی۔ اگر غیر بیمہ شدہ سائیکلوں کی چوری کے واقعات کو بھی شامل کیا جائے، تو یہ سالانہ تعداد کہیں زیادہ بنتی ہے۔
جی ڈی وی کے مطابق سائیکل چوری کے واقعات میں ریکارڈ کمی کا سبب زیادہ تر کورونا وائرس کی عالمی وبا بنی، کیونکہ عام شہری زیادہ تر طویل عرصے تک اپنے گھروں میں ہی رہے تھے اور سائیکل سواری کے رجحان میں ہوم آفس، لاک ڈاؤن اور دیگر وجوہات کے باعث کمی دیکھی گئی تھی۔
نقصان کی سالانہ مالیت 110 ملین یورو
جرمن انشورنس کمپنیوں کی ملکی تنظیم جی ڈی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ژورگ آسموسن نے برلن میں صحافیوں کو بتایا کہ 2021ء میں تقریباﹰ سوا لاکھ سائیکلوں کی چوری کے نتیجے میں ان کے مالکان اور یوں انشورنس کمپنیوں کو مجموعی طور پر 110 ملین یورو کا نقصان ہوا۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ پچھلے سال 2020ء کے مقابلے میں پورے ملک میں سائیکلیں تو 15 ہزار کم چوری ہوئیں، تاہم ان کی مالیت 2020ء میں چوری کے ایسے واقعات کے باعث ہونے والے مالی نقصانات کے تقریباﹰ برابر رہی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس دوران عام جرمن شہریوں میں مقابلتاﹰ زیادہ مہنگی سائیکلیں خریدنے کا رجحان بھی کافی زیادہ ہو گیا تھا۔
سائیکلنگ ماحول دوست، صحت مندانہ اور سستا شوق ہے۔ کئی یورپی شہر اپنی ’سائیکل دوستی‘ پر لاکھوں یورو خرچ کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
کوپن ہیگن
ڈنمارک کے دارالحکومت میں سائیکل سواری کے لیے ساڑھے تین سو کلومیٹر طویل نیٹ ورک موجود ہے۔ ٹریفک سگنلز پر سائیکل سواروں کے لیے ترجیحی اشارے موجود ہیں۔ سگنلز پر سبز اشارے کے انتظار کے لیے ’فٹ ریسٹ‘ بھی بنائے گئے ہیں۔ انگریزی میں ایک لفظ ’کوپین ہیگینائز‘ ماحول دوست شہروں کے لیے متعارف ہو چکا ہے۔
ہالینڈ کا شہر ایمسٹرڈم بھی یورپ میں سائیکل دوستی کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایمسٹرڈم میں سائیکل سوار تقریباً بیس لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ اس شہر کی میدانی سطح بھی سائیکلنگ کے لیے مناسب ہے۔ ہالینڈ کے ایک اور شہر اتریخت میں سائیکلیں کھڑی کرنے کا سب سے بڑا گیراج موجود ہے۔ اس میں ساڑھے بارہ ہزار سائیکلیں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Economou
اینٹویرپ
بیلجیم کے شہر اینٹورپ میں سائیکلیں کھڑی کرنے کے بے شمار مقامات ہیں۔ اس شہر کو بھی ’کوپن ہیگینائزڈ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ کرائے پر سائیکل حاصل کرنے کے نظام کو وسعت دینے کے علاوہ ساحل تک سائیکلنگ ٹریک کو توسیع دی جائے گی۔ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی مختلف سڑکوں پر پل بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے باوجود شہر کی سڑکیں ٹریفک سے بھری رہتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/P. Schickert
پیرس
پیرس کی شہری انتظامیہ بتدریج سائیکل نیٹ ورک کو توسیع دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اتوار کے دن تو کئی سڑکیں ٹریفک کے لیے بند اور سائیکل سواروں کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ بطور سیاح پیرس میں سائیکلنگ آسان ہے۔ کرائے پر سائیکل حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ سائیکل دوستی ایک اور فرانسیسی شہر اسٹراسبرگ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ پورے فرانس میں پیرس کو سب سے زیادہ سائیکل دوست شہر قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/S. Dee
مالمو
سویڈن کے شہر مالمو کی شہری انتظامیہ سائیکلنگ کے فروغ کے لیے کثیر رقوم خرچ کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے پانچ سو کلومیٹر طویل نیٹ ورک دستیاب ہے۔ راستے میں سائیکل میں ہوا بھرنے کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی ہے۔ مالمو اور کوپن ہیگن کے درمیان ’بائیک فیری‘ بھی سیاحت کو فروع دینے کا سبب بن رہی ہے۔ مالمو میں بائیسکل ہوٹل بھی ہیں اور اپنی سائیکل ہوٹل کے کمرے کے باہر بھی کھڑی کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Ohboy
ٹرونڈ ہائم
ناروے کے پہاڑی شہر ٹرونڈہائم میں لفٹ کے ذریعے پہاڑی حصے پر سائیکل سواروں کو پہنچایا جاتا ہے۔ شہر کے پہاڑی حصے میں 130 کلومیٹر لمبا سائیکل ٹریک موجود ہے اور اس پر تین سو افراد بیک وقت سائیکلنگ کر سکتے ہیں۔
تصویر: public domain
میونسٹر
جرمنی میں میونسٹر ایک ایسا شہر ہے، جہاں آبادی سے زیادہ سائیکلیں ہیں۔ یہ ویسٹ فیلیا نامی علاقے میں واقع ہے۔ اسی لیے یہ جرمنی کا وہ شہر بھی ہے، جہاں سائیکلوں کی چوری بھی بہت زیادہ ہے۔ ان چوریوں سے بھی مقامی شہری حوصلہ نہیں ہارے اور ہر چوری کے بعد نئی سائیکل خرید لیتے ہیں۔ شہر میں سائیکل چلانا آسان ہے۔ اونچ نیچ کے بغیر کھلے میدانی راستے میونسٹر کے سائیکل سواروں کو بہت پسند ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
بارسلونا
سن 2002 سے ہسپانوی شہر بارسلونا میں سائیکل کرائے پر بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس شہر میں ڈیڑھ سو کلومیٹر سے بھی طویل سائیکل ٹریک نیٹ ورک ہے۔ شہر سائیکل سواروں کے لیے محفوظ قرار دیا جاتا ہے۔ سیاحوں کو بھی کرائے کی سائیکلیں لے کر ساحل اور دوسرے تاریخی مقامات تک جانے میں آسانی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/G. Guarino
بازل
سوئٹزرلینڈ کا شہر بازل بھی ایک وسیع میدانی علاقے میں واقع ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے کے لیے فاصلے بھی زیادہ نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ سائیکلنگ کے لیے بھی ایک آسان شہر ہے۔ گلیوں میں بھیڑ ہوتی ہے اور سائیکل سواروں کو بھی احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ گرمیوں میں کئی سائیکل سوار سوئٹزرلینڈ کے مختلف شہروں میں سائیکل چلاتے ہوئے خوبصورت جھیلوں تک جانے کو ایک پرکشش تفریح سمجھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Dr. Schulte-Kellinghaus
9 تصاویر1 | 9
اوسط قیمت 860 یورو
ژورگ آسموسن نے سائیکل چوری کے واقعات سے متعلق اپنی تنظیم کے سالانہ اعداد و شمار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں سائیکلوں کی قیمتیں بھی زیادہ ہوئی ہیں اور عام صارفین بھی اب بہت اچھی اور مہنگی سپورٹس یا ماؤنٹین بائیکس خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
آسموسن نے کہا، ''سائیکل چوری کے کسی واقعے کی وجہ سے دس سال پہلے کسی بیمہ شدہ بائیسکل کے مالک اور یوں متعلقہ انشورنس کمپنی کو اوسطاﹰ 440 یورو (475 ڈالر) کا نقصان ہوتا تھا۔ اب لیکن اسی فی کس نقصان کی مالیت تقریباﹰ دوگنا ہو کر 860 یورو (930 ڈالر) ہو چکی ہے۔‘‘
جی ڈی وی کے سالانہ ڈیٹا کے مطابق جرمنی میں سادہ اور مقابلتاﹰ کم قیمت سائیکلوں کی چوری کے مقابلے میں بہت مہنگی ریسنگ بائیکس، ای بائیکس اور ماؤنٹین بائیکس کی چوری کا رجحان زیادہ ہے۔
م م / ر ب (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جرمنی میں سائیکل کیسے چلائیں؟
جرمنی میں موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی تہہ خانوں میں رکھی سائیکلیں نکال کر انہیں کی صفائی ستھرائی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ آپ سائیکل نکال کر چلانا شروع کر دیں، یہ چند اصول ضرور پڑھ لیجیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سائیکل کا لائسنس
جرمنی میں بچے بہت چھوٹی عمر میں ہی سائیکل چلانا سیکھ لیتے ہیں، کئی مرتبہ تو چلنا سیکھنے سے بھی پہلے۔ بچے جب آٹھ یا نو برس کی عمر کو پہنچتے ہیں تو پولیس اہلکار اسکولوں میں آ کر ’سائیکل لائسنس‘ نامی پروگرام کے تحت انہیں سائیکل چلانے کے لیے ٹریفک کے اصول سکھاتے ہیں۔
تصویر: Fotolia
’سائیکل دوست‘ شہر ڈھونڈیں
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر میونسٹر (تصویر میں) کو سن 2015 میں سب سے بہتر ’سائیکل دوست‘ شہر قرار دیا گیا تھا۔ کارلسروہے اور فرائبرگ جیسے جرمن شہر بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ تاہم جرمنی کے بڑے شہر اس فہرست میں بہت نیچے رہے۔ بے تحاشا کاروں اور زیر تعمیر عمارتوں کے سبب برلن کا نمبر تیسواں رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Gentsch
اپنا روٹ بھی دیکھیے
جرمنی بھر میں سائیکلوں کے لیے مختص راستوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ باویریا کے جنگلوں سے لے کر شہروں کے نواح میں ’اربن جنگلوں‘ تک میں سائیکل چلانے کے لیے راستے ہیں۔ تصویر میں وادی احر دکھائی دے رہی ہے جہاں سائیکل سوار انگور کے کھیتوں کے درمیان سے گزرتے راستوں پر سائیکل چلا رہے ہیں۔ پیڈل چلاتے پاؤں تھک گئے، تو رک جائیے اور مقامی وائن سے لطف اندوز ہویے۔
تصویر: Foto: Ahrtal-Tourismus Bad Neuenahr-Ahrweiler e.V.
پیدل چلنے والوں کا بھی احترام لازم
صرف سائیکلوں کے لیے متعین راستے پر اگر کوئی پیدل چلنا شروع کر دے تو سائیکل سوار بُرا مانتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر آپ اپنی سائیکل تیز نہیں چلا رہے تو بہتر ہے کہ آپ سائیکل پکڑ کر فٹ پاتھ پر پیدل چلنا شروع کر دیں۔ ورنہ پیچھے سے آنے والے سائیکل سوار گھنٹیاں بجا بجا کر آپ پر غصہ نکالتے رہیں گے۔
تصویر: Fotolia/Brilt
بہار، اتوار کا دن، اور جرمنی
جرمنی میں موسم بہار آتے ہی دن لمبے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ساتھ سڑکوں پر سائیکل سواروں کی تعداد بڑھ جاتے ہے۔ اگر آپ سائیکل چلانے والوں کو ذرا غور سے دیکھیں تو آپ کو ایسا کم از کم ایک معمر جوڑا ضرور دکھائی دے گا، جنہوں نے ایک جیسی شرٹس پہن رکھی ہوں گی اور ایک ساتھ سائیکل چلا رہے ہوں گے۔ ایسا منظر دیکھ کر محبت پر یقین بڑھ جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
موزوں لباس
کرسمس کے تہوار سے لے کر ایسٹر کے تہوار تک سرد موسم سے بچنے کی خاطر جرمن شہری بھاری اور گرم کپڑوں میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔ سائیکل چلانے کے لیے پولیسٹر کے بنے کپڑے (Spandex) سردی سے تو نہیں بچاتے لیکن پسینہ آنے کی صورت میں یہ بہت کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ سائیکل چلانے کے لیے موزوں لباس پہننا بھی اہم ہے۔
تصویر: dapd
اہم اصول
سب سے اہم اصول یہ ہے کہ نشے کی حالت میں گاڑی نہیں چلائی جا سکتی۔ بظاہر تو ایسی حالت میں سائیکل چلانا بہت خطرناک دکھائی نہیں دیتا، لیکن اگر خون میں الکحل کی مقدار مقررہ حد سے زیادہ ہو تو سائیکل چلانا نہ صرف آپ کے لیے بلکہ گاڑیاں چلانے والوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لیے بہتر ہے کہ آپ سائیکل کہیں لاک کریں اور ٹیکسی لے لیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وقت ہو تو دوسروں کی مدد ضرور کریں
سائیکل چلانے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ گاڑی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نہ ہی محض ورزش کی خاطر سائیکل چلائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ نقل و حرکت کا ایک باقاعدہ ذریعہ ہے، جو ماحول دوست بھی ہے۔ اگر کسی کی سائیکل خراب ہو گئی ہے، اور آپ اسے ٹھیک کرنا جانتے ہیں اور آپ کے پاس وقت بھی ہے تو دوسروں کی تھوڑی سی مدد ضرور کیجیے۔
تصویر: Imago
پبلک ٹرانسپورٹ میں سائیکل
اگر آپ سائیکل چلاتے تھک گئے ہیں تو جرمنی میں آپ اپنی سائیکل ٹرین، ٹرام یا پھر بس میں ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لیے آپ کو اضافی ٹکٹ چاہیے۔ علاوہ ازیں اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں لوگ زیادہ ہیں اور آپ اپنی سائیکل سمیت اس میں سوار ہو رہے ہیں تو لوگوں کی غصیلی نظروں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ فولڈ ہو جانے والی سائیکلیں اس حوالے سے آپ کے لیے اور دوسرے مسافروں کے لیے زیادہ بہتر رہیں گی۔