جرمنی میں زمانہ قبل از تاریخ کے ’بچوں کے فیڈرز‘ کی دریافت
26 ستمبر 2019
ماہرین آثار قدیمہ کو جنوبی جرمن صوبے باویریا سے زمانہ قبل از تاریخ کی ایسی نایاب باقیات ملی ہیں، جو دراصل بچوں کو دودھ یا پانی پلانے کے لیے ان کے 'فیڈرز‘ کا کام دیتی تھیں۔ ایسے کچھ برتن مختلف جانوروں کی شکلوں کے ہیں۔
اشتہار
زمین پر انسانی موجودگی کی معلوم تاریخ کے دور سے بھی پہلےکے زمانے کے یہ انتہائی قدیم برتن خاص طرح کی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان تاریخی باقیات کی مدد سے اس پہلو پر روشنی ڈالی جا سکے گی کہ زمانہ قبل از تاریخ کے انسان اپنے بچوں کو پانی یا دودھ کس طرح پلایا کرتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت دراصل ایک انتہائی قیمتی خزانہ ہے، جو یہ واضح کر سکے گا کہ 'پری ہِسٹورِک‘ (prehistoric) انسان اپنے شیر خوار بچوں کی پرورش کیسے کرتے تھے۔ ان سیرامک برتنوں کے بارے میں آرکیالوجسٹ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ برتن تقریباﹰ یقینی طور پر وہ 'بےبی بوتلیں‘ تھے، جن کے ذریعے ہزاروں برس پہلے کے انسان اپنے چھوٹے بچوں کو دودھ پلایا کرتے تھے۔
'دریافت شیر خوار بچوں کے قدیمی قبرستان سے‘
اس بارے میں ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ قدیمی باقیات جنوبی جرمن صوبے باویریا میں ایک ایسی جگہ سے ملیں، جو تاریخی حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ یہ برتن ایک ایسی جگہ سے ملے، جو تانبے اور لوہے کے زمانوں میں شیر خوار بچوں کی تدفین کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اسے ہزاروں سال پہلے کا 'شیرخوار بچوں کا قبرستان‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں آثار قدیمہ کی تیرہ نایاب دریافتیں
برلن میں آثار قدیمہ کی ایک نمائش میں یورپ میں ارتقاء کے عمل میں اہم کردار ادا کرنے والے کئی نایاب قدیمی نمونے رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ایسے آثار قدیمہ شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جو جرمنی ہی میں دریافت ہوئے۔
تصویر: Urgeschichtliches Museum Blaubeuren/J. Wiedmann
’تصوراتی‘ آسمان
یہ سکہ آثار قدیمہ کی تاریخ میں ایک اہم دریافت قرار دیا جاتا ہے۔ اس سکے پر آسمان کی ایک تصویر کندہ ہے۔ کائناتی مظہر کی یہ تصوراتی نقش نگاری آسمانی رازوں کی قدیم ترین تصویر کشی ہے۔ دھات کا یہ سکہ صوبے سیکسنی میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران 1999 میں ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ نیبرا نامی یہ سکہ کم از کم 36 سو سال پرانا ہے۔ اس پرنقش کائناتی مظاہر دراصل اُس وقت کے مذہبی عقائد کی دلالت کرتے ہیں۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege und Archäologie Sachsen-Anhalt/J. Lipták
قدیم ترین انسانی صورت گری
یہ قدیمی نمونہ سن 2008 میں جنوب مغربی جرمنی میں ایک غار سے دریافت کیا گیا۔ Venus of Hohle Fels نامی یہ فن پارہ انسانی صورت گری کا قدیم ترین شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بنی قریب چھ سینٹی میٹر کی اس انسانی شبیہ کے بارے میں یقین ہے کہ یہ تب تعویز کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ یہ 40 ہزار سال پرانی ہے۔ یوں قبل از تاریخ کے عہد کا یہ نمونہ قدیم ترین معلوم انسانی صورت گری قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Urgeschichtliches Museum Blaubeuren/J. Wiedmann
دیو قامت کلاہ
برلن میں جاری Restless Times: Archaeology in Germany نامی اس نمائش میں یہ طلائی کلاہ بھی رکھا گیا ہے۔ برنجی دور میں تخلیق کی گئی سونے کی چار ٹوپیوں میں سے تین برلن کی اس نمائش میں موجود ہیں۔ انہیں ایک ہزار سال قبل کے دور کے دیوتاؤں کی علامتوں اور خصوصیات سے منسلک کیا جاتا ہے، جو تب وسطی یورپ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے انتہائی مقدس تھے۔
تصویر: Museum für Vor- und Frühgeschichte Berlin/C. Plamp
کولون کا خزانہ
جرمنی سے دریافت ہونے والے ہزاروں قدیمی نوادرات پہلی صدی عیسوی کے ہیں۔ شہر کولون سے ملنے والے یہ دیے بھی برنجی دور کے ہیں۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق رومن سلطنت نے پہلی صدی عیسوی میں کولون میں ایک نئی آبادی بسائی تھی، جو تجارتی حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوئی۔ سن دو ہزار سات میں اسی شہر سے رومن دور کی ایک کشتی بھی دریافت ہوئی تھی، جس کی عمر انیس سو سال بنتی ہے۔
تصویر: Römisch-Germanisches Museum der Stadt Köln; Foto: Axel Thünker, DGPh
کیلٹک شہزادی کا راز
برلن کے Gropius Bau Museum میں جاری نمائش میں یہ زیور بھی موجود ہے۔ جرمنی کے شمالی شہر ہیربرٹنگن میں سن دو ہزار دس کے اختتام پر کیلٹک شہزادی کا ایک مقبرہ دریافت ہوا تھا۔ ساتھ ہی وہاں کانسی اور سونے کے بنے زیوارات بھی ملے تھے، جن سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ چھٹی صدی قبل از مسیح میں بھی یورپ اور دیگر خطوں کے مابین تجارت ہوتی تھی۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege Stuttgart/Y. Mühleis
قبروں میں پوشیدہ رومن آسائشیں
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ہالٹرن میں رومن دور کا ایک مخصوص مقبرہ دریافت کیا گیا تھا۔ اس مقبرے سے ایک شخص کی جسمانی باقیات کے علاوہ ایک ایسا بیڈ بھی ملا تھا، جو اس دور میں مُردوں کے لیے مخصوص تھا۔ ماہرین کے مطابق ایسے بیڈ اٹلی سے جرمنی منتقل کیے گئے تاکہ کسی رومن شہری کی موت کے بعد بھی اس کے آرام کا خیال رکھا جا سکے۔ دریافت شدہ یہ بیڈ ایک ہزار نو سو سال پرانا ہے۔
تصویر: LWL-Archäologie für Westfalen/S. Brentführer
پتھر کے زمانے کی ’سوئس چھری‘
یہ اوزار انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔ یہ چھری یا کلہاڑی نما آلہ افریقہ میں دو ملین برس پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ یورو ایشیائی ممالک میں البتہ اس اہم اوزار کی تاریخ چھ لاکھ برس سے زائد پرانی نہیں۔ یہ اوزار دراصل کاٹنے، مکس کرنے، مارنے یا پھینکنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ تصویر میں نظر آنے والا یہ پتھریلا اوزار 35 ہزار سال پرانا ہے۔
تصویر: Archäologisches Museum Hamburg
آگ کے طوفان پر سواری
یہ کانسی کا بنا چھوٹا سا مجسمہ ان گیارہ مجسموں میں سے ایک ہے، جو سن دو ہزار دس میں برلن میں تاریخی مقامات کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئے تھے۔ نازی دور حکومت میں ان مجسوں کو میوزیم سے اٹھا لیا گیا تھا اور ایک ڈپو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی بمباری کی حدت اور تباہی نے اس مجسمے کے رنگ و روغن پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔
تصویر: Museum für Vor- und Frühgeschichte Berlin/A. Kleuker
یورپ کا قدیم ترین میدان جنگ
سن انیس سو نوے کے اواخر میں جرمن صوبے میکلن برگ بالائی پومیرانیا میں دریائے ٹولینزے کے کناروں پر جاری آثار قدیمہ کے لیے کھدائی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں انسانی ہڈیاں اور مختلف قسم کے ہتھیار ملے تھے۔ اس مقام کو یورپ کا قدیم ترین جنگی میدان قرار دیا جاتا ہے، جہاں ہونے والے جنگی معرکے میں دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شریک ہوئے تھے۔ اس میدان جنگ سے ملنے والی اشیا 33 سو برس پرانی ہیں۔
تصویر: Landesamt für Kultur und Denkmalpflege Mecklenburg-Vorpommern
جادوئی لیبارٹری
سن دو ہزار بارہ میں جرمن شہر وِٹن برگ میں ایک مکمل لیبارٹری دریافت کی گئی تھی۔ اس قدیمی لیبارٹری میں وہ تمام اہم آلات ملے، جو تجربہ گاہوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ دریافت کے وقت اس لیبارٹری سے ملنے والے آلات اور برتن چھوٹے چھوٹے حصوں میں ٹوٹے ہوئے تھے۔ تاہم جب ماہرین نے انہیں جوڑا تو معلوم ہوا کہ یہ تو یورپ کی پہلی سائنسی تجربہ گاہ تھی۔ اندازہ ہے کہ یہ سن پندرہ سو بیس تا پندرہ سو چالیس کے دور کی ہے۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege und Archäologie Sachsen-Anhalt/J. Lipták
قدیمی سامان آرائش
جنوبی جرمن علاقے میں واقع جھیل کونسٹانس کے قریب ہی یہ قدیمی نمونہ ملا۔ اندازہ ہے کہ یہ نئے سنگی دور کا ہے۔ مٹی کے پلاسٹر پر بنائی گئی یہ تخلیق اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انسان چار ہزار سال قبل از مسیح بھی اپنے گھروں کو مختلف طریقوں سے سجاتے تھے اور ان کے آرائش کرتے تھے۔ اس نمونے میں دراصل اس زمانے کے خداؤں اور روایات کے مطابق گھر کو محفوظ بنانے والے طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege Hemmenhofen/M. Erne
’یسوع مسیح قبر میں‘
قرون وسطیٰ میں رومن کیتھولک مقدس مقامات کی زیارتوں کے دوران ان نمونوں کو بطور بیج یا زیبائش کے لیے اپنے بدن پر سجاتے تھے۔ کچھ لوگ تو ان بیجز کی مقدس حیثیت کی وجہ سے انہیں قبروں تک بھی لے جاتے تھے۔ یہ قدیمی بیج ہاربرگ (موجودہ جرمن شہر ہیمبرگ کا ایک علاقہ) سے ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ ایسی عبادتی علامتیں تیرہویں اور چودہویں صدی میں اس علاقے میں لائی گئی تھیں۔ اس بیج میں ’یسوع مسیح گدھے پر سوار‘ ہیں۔
تصویر: Archäologisches Museum
Hamburg
نو سو گرام چاندی
سن دو ہزار پانچ میں ایک کوہ پیما نے اپر لوساتیا میں اپنی ایک مہم کے دوران اتفاق سے چاندی کے یہ سکے ڈھونڈ نکالے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سکے گیارہویں صدی عیسوی کے ہیں۔ تجارتی عمل کے دوران یہ چاندی کے سکے دنیا کے مختلف علاقوں سے یورپ پہنچے، حتیٰ کہ کچھ سکے تو بغداد سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔ باقاعدہ کرنسی کی ایجاد سے قبل یہی سکے خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتے تھے
تصویر: Landesamt für Archäologie Sachsen/U. Wohmann
13 تصاویر1 | 13
اس بارے میں سائنسی جریدے 'نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ تاریخی برتن اس امر کا ثبوت بھی ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ کا انسان بھی اپنے بچوں کی غذائی ضروریات پورا کرنے کے لیے انہیں دودھ پلاتا تھا، جو گھروں میں پالے جانے والے جانوروں سے حاصل کیا جاتا تھا۔
اس سے قبل ماہرین آثار قدیمہ کے پاس اس بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں والدین اپنے بچوں کو کھانے یا پینے کے لیے کس طرح کی خوراک دیتے تھے۔ آرکیالوجسٹ یہ پتہ چلانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان قدیمی برتنوں میں سے انہوں نے جن تین کا تفصیلی سائنسی معائنہ کیا، ان میں سے ایک تانبے کے دور میں یعنی 2800 سال سے لے کر 3200 سال پہلے بنایا گیا تھا۔
اولاد سے محبت تو ہمیشہ ہی سے تھی
برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی کی ماہر آثار قدیمہ اور مالیکیولر بیالوجسٹ جُولی ڈَن کہتی ہیں، ''میری رائے میں یہ وہ پہلا براہ راست ثبوت ہے کہ قبل از تاریخ کے عہد میں انسانی بچے کس طرح کی خوراک کھاتے تھے۔‘‘
سعودی عرب کے تاراج شہر میں خوش آمدید
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک کے دروازے سب کے لیے کھولنا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں سیاح آثار قدیمہ کا ایک نایاب خزانہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ العلا نامی یہ قدیمی نخلستان ملک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم تہذیب
العلا کبھی خطے کے مختلف تجارتی راستوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس مقبرے کی طرح یہ علاقہ آثار قدیمہ کے خزانے سے بھرا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک سو گیارہ مقبرے
مدائن صالح سعودی عرب کے مشہور شہر مدینہ سے تقریبا چار سو کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ العلا کے مضافات میں واقع یہ آثار قدیمہ سن دو ہزار آٹھ سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ دو ہزار برس پہلے یہاں پتھروں کو تراشتے ہوئے ایک سو گیارہ مقبرے بنائے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
انجینئرنگ کا بہترین نمونہ
قدیم دور میں یہ قوم الانباط کا مرکزی اور تجارتی علاقہ تھا۔ یہ قوم اپنی زراعت اور نظام آبپاشی کی وجہ سے مشہور تھی۔ یہ قوم نظام ماسيليات (ہائیڈرالک سسٹم) کی بھی ماہر تھی اور اس نے اس خشک خطے میں پانی کے درجنوں مصنوعی چشمے تیار کیے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم زمانے کے پیغامات
قدیم دور کا انسان کئی پیغامات پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ وہ جملے ہیں، جو دو ہزار برس پہلے کنندہ کیے گئے تھے۔ امید ہے سیاح انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
مل کر حفاظت کریں گے
سعودی ولی عہد نے فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک مل کر ایسے قدیم شہروں کی حفاظت کریں گے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ان کو دیکھ سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک نظر بلندی سے
اس کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے پہلے اس سے متعلقہ تمام اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔ مارچ میں پیمائش کے دو سالہ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ڈرونز اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سیاحوں کے لیے ویزے
ابھی تک صرف مخصوص شخصیات کو ہی ان آثار قدیمہ تک جانے کی اجازت فراہم کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار پندرہ میں برطانوی پرنس چارلس کو العلا میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب سعودی عرب تمام سیاحوں کی ایسے اجازت نامے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/J. Stillwell
قیام گاہوں کی کمی
تین سے پانچ برسوں تک تمام سیاحوں کی رسائی کو العلا تک ممکن بنایا جائے گا۔ ابھی یہ شہر سیاحوں کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ فی الحال وہاں صرف دو ہوٹل ہیں، جن میں ایک سو بیس افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
8 تصاویر1 | 8
انہوں نے کہا، ''یہ انتہائی نادر اور قدیمی باقیات یہ بھی دکھاتی ہیں کہ قبل از تاریخ کے دور کے انسان اپنے بچوں سے کتنی محبت اور کس طرح ان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔‘‘ ان برتنوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر مختلف جانوروں کی شکلوں کے ہیں۔
سوات کی ایک ہزار سال پرانی تاریخی مسجد
شمالی پاکستان کی سب سے قدیم مسجد کے آثار تقریباً تیس سال پہلے اطالوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے سوات کے علاقے اوڈیگرام میں دریافت کیے تھے، جس کے بعد زرِ کثیر صرف کرتے ہوئے اس کی مرمت اور بحالی کا کام عمل میں لایا گیا۔
تصویر: DW/A. Bacha
قدیم فن تعمیر کا ایک شاہکار
سوات کے علاقے اوڈیگرام میں سلطان محمود غزنوی کے دور کی تعمیر کردہ مسجد شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد ہے جو 440 ھجری یعنی 1048 اور 1049 عیسوی کے درمیان تعمیر کی گئی تھی۔ 1985ء میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن نے اس مسجد کو دریافت کیا تھا۔
تصویر: DW/A. Bacha
غزنوی کی فوج سوات میں
اوڈیگرام کے ایک رہائشی اور ماہر آثار قدیمہ جلال الدین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ گیارہویں صدی کے دوران جب سلطان محمود غزنوی نے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) پر حملہ کیا تو اُس کی فوج باجوڑ ایجنسی کے ذریعے سوات کی تاریخی وادی میں داخل ہوئی۔
تصویر: DW/A. Bacha
فتح کی خوشی میں مسجد کی تعمیر کا اعلان
سوات کی وادی میں داخل ہونے کے بعد علاقے کو فتح کرنے کے لیے سلطان محمود غزنوی نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا: ایک گروپ جس کی سربراہی وہ خود کر رہے تھے، دریا عبور کرنے کے بعد اس تاریخی علاقے میں داخل ہونے کے بعد اس وقت کے آخری بادشاہ راجہ گیرا کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ آور ہوا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد سلطان محمود غزنوی نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور اس وقت کے حاکم منصور نے یہ مسجد تعمیر کروائی۔
تصویر: DW/A. Bacha
ہزار سال بعد دوبارہ تعمیراتی کام
1985ء میں اس مسجد کو دریافت کرنے والے اٹالین آرکیالوجیکل مشن نے اس عبادت گاہ کی بوسیدہ دیواروں کو دوبارہ تعمیر کیا جبکہ مسجد کو جانے والے راستے اور وضو خانے بھی تعمیر کیے۔ ساتھ ساتھ اس مسجد کو چاروں طرف سے محفوظ بھی بنایا گیا۔
تصویر: DW/A. Bacha
پہاڑی کے دامن میں عبادت گاہ
اوڈیگرام میں پہاڑوں کے دامن میں 1984ء میں مسجد کے احاطے سے ایک کتبہ دریافت ہوا، جس پر درج تھا کہ محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشتگین کے زیر نگرانی مسجد تعمیر کروائی، جس کا مقصد علاقے میں اسلام کا فروغ تھا۔
تصویر: DW/A. Bacha
بدھا کے مجسموں کے آثار
ایک اور ماہر آثار قدیمہ فضل خالق کے مطابق مسجد کے مقام پر بدھ مت کے دور کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ یہ آثار مسجد کی تعمیر سے پہلے بھی یہاں موجود تھے، جنہیں توڑا گیا اور پھر اُنہی پتھروں کو استعمال کرتے ہوئے یہ مسجد تعمیر کی گئی۔
تصویر: DW/A. Bacha
اسلامی فن تعمیر کی عکاس عبادت گاہ
اوڈیگرام (سوات) کی سلطان محمود غزنوی مسجد قدیم اسلامی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ مسجد میں 30 فٹ چوڑی دیوار، عام کمرے، طالب علموں کے کمرے، ان کے پڑھنے کی جگہ، قبرستان اور صحن میں پانی کا ایک تالاب بھی موجود ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
مسجد تک جانے والا راستہ
کافی بلندی پر واقع اس مسجد تک جانے کے لیے ایک کشادہ راستہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیرِ نو کا کام 2011ء میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن کی نگرانی میں انجام پایا اور اس پر دو ملین یورو کی لاگت آئی۔ اٹالین آرکیالوجیکل مشن پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لوکا ماریا الویری کے مطابق مسجد کی تزئین و آرائش پاکستان اور روم حکومت کے درمیان 2006ء میں طے ہونے والے سو ملین ڈالر کے ایک آرکیالوجیکل معاہدے کا حصہ ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
سواتی آثارِ قدیمہ میں اٹلی کی دلچسپی
اٹلی کے آرکیالوجیکل مشن کے تحت اوڈیگرام میں مسجد کے آثار کی کھوج کا کام 1985ء سے لے کر 1999ء تک جاری رہا۔ اطالوی حکومت وادیء سوات میں قدیم ورثے کی حفاظت کے کئی دیگر منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
بلند و بالا پہاڑوں کے دلکش مناظر
مسجد سے نیچے وادی میں دیکھنے پر یہ خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ قدیم اور تاریخی مسجد اب سیاحوں اور عام لوگوں کے لیے کھولی جا چکی ہے اور دور دراز علاقوں سے لوگ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔ یہاں اب باقاعدگی سے نمازِ جمعہ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
10 تصاویر1 | 10
دودھ پینے کے لیے ان برتنوں کے منہ ایسے جانوروں کی کمروں پر بنے ہوتے تھے۔ یہ برتن ایسے بنائے گئے تھے کہ ایسے 'جانور نما برتنوں‘ کو ان کے سینگوں، دم، منہ یا پاؤں سے پکڑنے میں چھوٹے بچوں کو بھی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
آسٹریا کی اکیڈمی آف سائنسز سے منسلک ماہر آثار قدیمہ کاتارینا ریبے زالسبری کہتی ہیں، ''مجھے یہ برتن دیکھنے میں بڑے ہی پیارے اور معصومیت کے مظہر نظر آتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس دور میں یہ برتن دوہرے مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہوں۔ پانی یا دودھ پینے کے لیے آج کل کے بچوں کے 'فیڈروں‘ جیسے اور شاید کھیلنے کے لیے تقریباﹰ ان کھلونوں کی طرح بھی، جیسے آج کل کے بچے بھی چھوٹی عمر میں استعمال کرتے ہیں۔‘‘
زمانہ قبل از تاریخ کا یورپ
آسٹرین آرکیالوجسٹ ریبے زالسبری کہتی ہیں کہ تانبے اور لوہے کے ادوار میں یورپ میں زندگی بہت ہی مشکل تھی۔ تب بہت سے لوگ قحط اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے تھے اور روزمرہ زندگی میں حفظان صحت کی صورت حال بہت بری ہوتی تھی۔ اب تک دستیاب تاریخی اور طبی معلومات کے مطابق اس دور میں نومولود بچوں میں سے تقریباﹰ ایک تہائی اپنی زندگی کا پہلا سال پورا کرنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ مزید یہ کہ اس دور میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے صرف تقریباﹰ نصف ہی بڑے ہو کر بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے تھے۔
م م / ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)
عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کردہ نئے مقامات
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے کچھ مزید تاریخی عمارات اور مقامات کو عالمی ورثہ قرار دے دیا ہے، جن میں جرمن شہر ناؤم برگ کا کیتھیڈرل بھی شامل ہیں۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان تاریخی مقامات پر۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.Woitas
ناؤم برگ کیتھیڈرل، جرمنی
تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر کردہ یہ کیھیڈرل قرون وسطیٰ کا ایک اعلیٰ تعمیراتی نمونہ ہے۔ اس کی خاص بات وہ بڑے بڑے مجسمے بھی ہیں، جو ناؤم برگ کے نامعلوم مجسمہ سازوں نے تخلیق کیے۔ یُوٹا فان ناؤم برگ کو قرون وسطیٰ کی خوبصورت ترین خاتون تصور کیا جاتا ہے۔ اگر مجسمہ سازوں کو معلوم ہوتا کہ ایک دن اس کیتھیڈرل کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے دیا جائے گا، تو شاید وہ اس خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ بھی بکھیر دیتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Endig
گوئبیکلی ٹیپے، ترکی
گوئبیکلی ٹیپے انسانی تاریخ کے قدیم ترین معبد قرار دیے جاتے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ قریب بارہ ہزار برس پرانے ہیں۔ یوں یہ مقام انگلینڈ میں پتھر کے دور اور اہرام مصر سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ جنوب مشرقی اناطولیہ کے علاقے میں واقع ان قدیمی معبدوں کو دیکھنے کے لیے سیاح دور دور سے اس خطے کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DAI
بودھ بھکشوؤں کی خانقاہیں، جنوبی کوریا
برسوں کے استحصال اور ظلم و ستم کے باوجود جنوبی کوریا میں مخروطی طرز کی چار بودھ خانقاہیں ابھی تک محفوظ ہیں۔ ٹونگ ڈوسا، بسوکسا، بوبجسا اور ڈہاونگسا نامی چار خانقاہیں جنوبی کوریا میں ساتویں صدی عیسوی کی بودھ روایات کی عکاس ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والی پانچ منزلہ مخروطی خانقاہ قریب تین ہزار بودھ بھکشوؤں کا مسکن تھی۔
تصویر: CIBM
مدینہ الزھرا، اسپین
قرطبہ کے خلیفہ عبد الرحمان الثالث نے اس شاندار شہر کی تعمیر کا حکم سن 936ء میں دیا تھا۔ اس شاہی شہر کی تعمیر میں چالیس برس کا عرصہ لگا تھا۔ عبدالرحمان نے اسے اپنی لونڈی الزھرا کے نام سے منسوب کیا تھا۔ یہ شہر اپنی تعمیر کے چوالیس برس بعد دشمنوں کے حملوں میں تباہ ہو گیا تھا۔ قرطبہ کے نواح میں واقع مدینہ الزھرا کی باقیات آج بھی مسلمانان اندلس اور اسپین کی تاریخ کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔
تصویر: CAMaZ
ہائٹابُو اور ڈانےوِرکے، جرمنی
نویں صدی عیسوی میں وائکنگ عہد میں ہائٹابُو کا یہ تجارتی مرکز تعمیر کیا گیا تھا۔ اس تجارتی مرکز کی حفاظت کی خاطر تیس کلومیٹر طویل ایک دیوار بھی تعمیر کی گئی تھی، جسے ڈانےوِرکے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جرمن صوبے شلیسوگ ہولشٹائن میں ہائٹابُو اور ڈانےوِرکے کی باقیات آج بھی ایک قدیمی اثاثہ قرار دی جاتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C.Charisius
چیری بیکیتے نیشنل پارک، کولمبیا
ایمازون کے جنگلات میں واقع چیری بیکیتے نیشنل پارک کو عالمی ثقافتی ورثے کا اعزاز دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ وہاں واقع ثقافتی مقامات کے علاوہ اس پارک کا قدرتی حسن بھی ہے۔
تصویر: Jorge Mario Álvarez Arango
تھیملِچ اوہنگا، کینیا
پتھر کے اوپر پتھر رکھ کر یہ دیواریں بنائی گئی تھیں۔ پانچ سو سال پرانی ان دیواروں کو پختہ کرنے کی خاطر کوئی مواد استعمال نہیں کیا گیا تھا لیکن یہ دیواریں آج بھی اپنی جگہ کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ دیواریں مشرقی افریقہ میں پائے جانے والے انتہائی اہم آثار قدیمہ میں شمار ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیواریں حملہ آوروں سے بچاؤ کی خاطر بنائی گئی تھیں اور کسی زمانے میں ان دیواروں کے اندر انسانی بستیاں بھی تھیں۔
تصویر: National Museums of Kenya
ناگاساکی میں میسحیوں کے خفیہ مقامات، جاپان
جاپان میں ناگاساکی کے علاقے میں مسیحیوں کے خفیہ مقامات میں ایک کیتھیڈرل، ایک قلعہ اور دس گاؤں سترہویں اور انیسویں صدی عیسوی کے دوران وہاں اس مذہبی برادری کے استحصال کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ جاپانی مسیحی باشندے اس دور میں ایک دور دراز جزیرے کی طرف فرار ہو گئے تھے اور وہاں انہوں نے اپنے مذہبی عقیدے کو زندہ رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Chibahara
تاریخی شہر قلھات، عمان
عمان کا شمال مغربی شہر قلھات چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔ اس شہر میں واقع بی بی مریم کا مزار اس شہر کی قدیمی روایات کا عکاس بھی ہے۔ سن دو ہزار دس کے اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی مجموعی آبادی قریب گیارہ سو بنتی تھی۔
تصویر: MHC
ممبئی کا وکٹورین اور آرٹ ڈیکو کوارٹر، بھارت
طرز تعمیر یورپی لیکن ہندوستانی رنگ نمایاں، بھارتی شہر ممبئی کے اس علاقے والے حصے کی یہی خاص پہچان ہے۔ اس علاقے میں تعمیر کردہ عمارات میں انیسویں صدی عیسوی کا وکٹورین طرز تعمیر تو نمایاں ہے ہی لیکن بیسویں صدی عیسوی میں اس میں آرٹ ڈیکو کی آمیزش نے اسے اور بھی دیدہ زیب بنا دیا تھا۔ اب اس علاقے کو بھی عالمی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے۔
تصویر: Abha Narain Lambah Associates
پیماچیئووِن آکی، کینیڈا
وسیع تر جنگلات، دریاؤں اور قدرتی حسن سے مالا مال پیماچیئووِن آکی نامی علاقہ سات ہزار برس قبل انیشینابیگ لوگوں کا مسکن تھا۔ پیماچیئووِن آکی کا مطلب ہے، ’ایسا دیس جو زندگی بخشتا ہے‘۔ مقامی لوگوں کے لیے آج بھی اس مقام کو محفوظ بنانا ان کی ثقافت اور عقیدے کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ باشندے جانتے ہیں کہ قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کس طرح ہوا جا سکتا ہے۔