منشیات کی اسمگلنگ، چاقوؤں سے حملوں اور سڑکوں پر تشدد کے واقعات جرمن میڈیا میں اکثر رپورٹ ہوتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی جرمنی میں جرائم بڑھ رہے ہیں؟ اور بین الاقوامی سطح پر جرمنی کہاں کھڑا ہے؟
پولیس اکثر فرینکفرٹ سینٹرل ریلوے اسٹیشن کے ارد گرد کے بدنام زمانہ علاقے میں چھاپے اور جانچ پڑتال کرتی ہےتصویر: Boris Roessler/dpa/picture alliance
اشتہار
’’نیا جرمنی‘‘ایک''شرمندگی اور المیہ‘‘ ہے۔
یہ الفاظ جنوبی افریقی-جرمن ٹریول بلاگر کرٹ کاز کے ہیں۔ وہ اپنے ویڈیو میں فرینکفرٹ کے سینٹرل ریلوے اسٹیشن کے ارد گرد کے بدنام زمانہ علاقے کو ’’نئے جرمنی‘‘ کی تصویر قرار دیتے ہیں، جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ’’جرائم، غیر قانونی تارکین وطن اور منشیات کے قبضے میں‘‘ ہے۔
ویڈیو میں نشے کے عادی افراد فٹ پاتھ پر لیٹے ہیں، ایک مشتبہ ڈیلر انہیں دھمکاتا ہے، ایک خاتون بوتل پھینکتی ہے۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر 60 لاکھ اور ٹک ٹاک پر ایک کروڑ سے زائد بار دیکھی جا چکی ہے۔ بہت سے نسلی تعصب پر مبنی تبصرے بھی اس پر موجود ہیں۔
ایسی کئی ویڈیوز جرمنی میں جرائم کے بارے میں وائرل ہو رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ زمینی حقائق کی درست عکاسی کرتی ہیں؟
2024 میں جرمنی میں قتل کی شرح 0.91 فی ایک لاکھ آبادی تھی، اور دنیا میں اس اعتبار سے 147 ویں نمبر پر رہاتصویر: Imago/photothek/T. Imo
برلن اور فرینکفرٹ دیہی علاقوں سے زیادہ خطرناک
کریمنالوجسٹ سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق فرینکفرٹ کا ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع علاقہ طویل عرصے سے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ رہا ہے، ''یہ تشدد کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اور منشیات کے جرائم کو بھی۔‘‘
اشتہار
جرمنی میں کچھ خاص علاقے ایسے ہیں جہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ جیسے دیگر ممالک میں، شہروں میں جرائم زیادہ اور دیہات میں کم ہوتے ہیں۔
بڑے شہر جیسے بریمن، برلن اور فرینکفرٹ میں جرائم کی سطح بلند ہے، جزوی طور پر اس لیے کہ شہروں میں سماجی عدم مساوات زیادہ ہے۔
عمومی طور پر جرمنی کو ایک ’’انتہائی محفوظ ملک‘‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق دیگر مغربی ممالک کی طرح یہاں بھی 1980 اور 1990 کی دہائی سے جرائم کم ہوئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے، جیسے کہ آج کی گاڑیوں کو چرانا پرانی گاڑیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہے۔
ماہرین کے مطابق دیگر مغربی ممالک کی طرجرمنی میں بھی 1980 اور 1990 کی دہائی سے جرائم کم ہوئے ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa/Tnn
عالمی سطح پر جرمنی کہاں کھڑا ہے؟
جرمنی کی بین الاقوامی پوزیشن کو پرکھنے کا سب سے بہتر طریقہ قتل کی شرح دیکھنا ہے۔ سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق یہ ’’گولڈ اسٹینڈرڈ‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کا طویل ترین ڈیٹا بھی دستیاب ہے۔
2024 میں جرمنی میں قتل کی شرح 0.91 فی ایک لاکھ آبادی تھی، اور دنیا میں اس اعتبار سے 147 ویں نمبر پر رہا۔
موازنہ کریں تو جنوبی افریقہ اور ایکواڈور میں یہ شرح 40 فی ایک لاکھ سے زائد ہے، جبکہ امریکہ میں 5.76 ہے۔
بیس سال پہلے جرمنی میں یہ شرح 2.5 فی ایک لاکھ تھی، یعنی آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ۔ طویل مدت میں کمی کے باوجود حالیہ برسوں میں تشدد کے جرائم میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق زیادہ تر تشدد کرنے والے نوجوان مرد ہوتے ہیں، اور اس میں مہاجرت کا کردار بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا، ’’مغربی یورپ کے کئی ممالک میں ایسے نوجوان مردوں کی تعداد بڑھی ہے جو اپنے خاندان کے بغیر آتے ہیں، جن پر سماجی کنٹرول نہیں ہوتا، اور اکثر جنگ یا خانہ جنگی سے گزرنے کے باعث ذہنی طور پر شدید متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ کامیاب انضمام جرائم کو کم کرتا ہے، کیونکہ اصل وجوہات بیروزگاری اور مواقع کی کمی ہیں، نہ کہ کسی کا ملکِ پیدائش۔
انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مہاجرین مقامی شہریوں کے مقابلے میں کم جرائم کرتے ہیں۔‘‘
مہاجرین کے خلاف زیادہ تر جرائم کا کھوج نہ لگایا جا سکا، رپورٹ
02:42
This browser does not support the video element.
کئی جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے
میونخ کے آئیفو انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق کے مطابق صنف اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ لوگ کہاں رہتے ہیں۔
یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز کولون میں کریمنالوجی کی ماہر گینا روزا وولنگر کے مطابق مہاجرین شہروں میں زیادہ رہتے ہیں، اور شہری علاقے جرائم سے زیادہ جڑے ہوتے ہیں۔
تحقیقات سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ جرمن اور غیر جرمن نوجوانوں کے درمیان تشدد کے اسباب یکساں ہیں، مگر مہاجر نوجوانوں میں خطرے کے عوامل زیادہ ہوتے ہیں، جیسے تعلیم کی کمی، گھر میں تشدد کا تجربہ، یا مردانگی کے نام پر تشدد کو جائز سمجھنے والی سوچ۔
جرمنی میں جرائم کے اعداد و شمار کی سب سے بڑی ذریعہ وفاقی کریمنل پولیس آفس (بی کے اے) ہے۔ لیکن یہ صرف وہ کیسز ہوتے ہیں جو پولیس کو رپورٹ کیے جائیں۔ اصل تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیونکہ کچھ جرائم کم رپورٹ ہوتے ہیں، جیسے دیہی علاقوں میں گھریلو تشدد۔
جرمنی کےعادی قاتل
دنیا میں بھیانک اور سلسلہ وار جرائم کی وارداتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایسے مجرم بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں اور بعض انسانی گوشت کھاتے ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران جرمنی کے عادی قاتلوں پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
میونسٹر برگ کا آدم خور
کارلے ڈینکے نے کم از کم بیالیس افراد کا قتل کیا اور پھر اُن میں سے کئی کا گوشت بھی کھاتا رہا۔ زیادہ تر مقتولین کا تعلق دیہات سے تھا۔ یہ سن 1903 سے 1924 کے دوران سرگرم تھا۔ ایسا بھی خیال کیا گیا کہ اُس نے بعض مقتولین کا گوشت موجودہ پولینڈ کے شہر وراٹس وہاف میں سور کا گوشت قرار دے کر فروخت بھی کیا۔ ڈینکے نے جیل میں خود کو پھندا دے کر خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: 171413picture-alliance/arkivi
ہینوور کا خوف
جرمن شہر ہینوور میں فرٹز ہارمان نے کم از کم چوبیس لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ یہ سن 1918 سے 1924 تک فعال رہا۔ اس کی وارداتوں سے ہینوور میں خوف و ہراس پیدا رہا۔ اس کا سر سن 1925 میں قلم کر دیا گیا تھا۔
کارل گراس مان نے جن افراد کو قتل کیا، اُن کے گوشت بھی وہ بلیک مارکیٹ میں اپنے ہاٹ ڈاگ اسٹینڈ پر فروخت کرتا رہا۔ اُس نے کتنے قتل کیے اُن کی تعداد کا علم نہیں لیکن اُس پر ایک سو سے زائد لاپتہ ہونے والے افراد کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ اُس کے مکان کے قریب سے تیئیس خواتین کی ٹکڑوں میں تقسیم نعشیں ملی تھیں۔ اس نے سن 1922 میں موت کی سزا سے قبل خود کو پھندا لگا لیا تھا۔
تصویر: Gemeinfrei
جھیل فالکن ہاگن میں پھیلی دہشت
جرمن علاقے براڈن برگ کی جھیل فالکن بیرگ کے قرب جوار میں سن 1918 سے 1920 تک ایک تالے بنانے والے شخص، فریڈرش شُومان کی لرزہ خیز وارداتوں سے شدید خوف پیدا ہوا۔ اس شخص کی گرفتاری ایک جنگل کے گارڈ کے ساتھ لڑائی اور پھر اُس کے قتل کے بعد ہوئی۔ شومان نے کُل پچیس افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اُسے اٹھائیس برس کی عمر میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
برلن ٹرام کا قاتل
پال اوگورٹسو پر جنسی زیادتی کے اکتیس واقعات کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی گئی۔ یہ نازی دور میں برلن میں چلنے والی ٹرام سروس میں ملازمت کرتا تھا۔ اُس نے آٹھ خواتین اور چھ دوسرے افراد کو سن 1940 اور 1941 میں قتل کیا۔ وہ چلتی ٹرام میں یہ وارداتیں کرتا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے شکار کو چلتی ٹرین سے باہر پھینک دیتا تھا۔ اُس کو گرفتاری کے بعد موت کی سزا دی گئی۔
تصویر: Gemeinfrei
موت کا ہر کارہ
روڈولف پلائل سرحدی محافظ تھا۔ مشرقی جرمنی کے پہاڑی علاقے ہارٹس میں سن 1946 ہونے والی دو سالہ تعیناتی کے دوران سابقہ مشرقی حصے سے مغربی جرمنی کی جانب خواتین روانہ کرنے کے ناجائز کاروبار میں ملوث رہا۔ اس سرحدی محافظ نے پچیس افراد کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ عدالت نے سن 1950 میں اُسے عمر قید کی سزا سنائی۔ پلائل نے آٹھ برس بعد جیل میں خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈوئیس بُرگ کا انسانی گوشت کھانے والا
ژوآخم گیرو کرول ایک عادی قاتل، بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے علاوہ انسانی گوشت کا بھی رسیا تھا۔ سن 1955 سے لے کر سن 1976 کے دوران 14 افراد کو قتل کیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ جب وہ سن 1976 میں گرفتار ہوا تو اُس کا ریفریجریٹر انسانی گوشت سے بھرا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ ایک چار سالہ بچی کے ہاتھ اور پاؤں پکا رہا تھا۔ کرول کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن سن 1991 میں ہارٹ اٹیک سے مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Sieländer
دُھوئیں نے قاتل بے نقاب کر دیا
فرٹز ہونکا نے سن 1970 سے 1975 کے درمیان چار خواتین طوائفوں کو گلہ گھونٹ کر پہلے ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کے ٹکڑے کر کے اپارٹمنٹ میں رکھ دیے۔ ایک دن اپارٹمنٹ والی بلڈنگ میں آگ لگ گئی اور پھر فائر فائٹرز کو وہ انسانی ٹکڑے دستیاب ہوئے۔ ہونکا اُس وقت کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ عدالت نے اُسے نفسیاتی مریض قرار دے کر پندرہ برس کی سزائے قید سنائی۔ وہ 1993 میں رہا ہوا اور پانچ برس بعد مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سینٹ پاؤلی کا قاتل
ہیمبرگ کے بازار حسن والے علاقے سینٹ پاؤلی میں ویرنر پِنسر ایک کرائے کے قاتل کے طور پر مشہور تھا۔ اُس نے سات سے دس ایسے افراد کا قتل کیا جو جسم فروش خواتین کی دلالی کرتے تھے۔ اُس نے تفتیش کے دوران اچانک پستول نکال کر پہلے تفتیش کار کو ہلاک کیا پھر اپنی بیوی کے بعد خود کو بھی گولی مار لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
زہر سے موت دینے والی
جرمن شہر کولون کی نرس ماریانے نؤل اپنے مریضوں کو زہر کا ٹیکا لگا کر موت دیتی تھی۔ اُس نے سن 1984 سے لے کر سن 1992 کے دوران سترہ افراد کو زہر دے کر ہلاک کیا اور دیگر اٹھارہ کو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئے۔ اُس نے کبھی اعتراف جرم نہیں کیا۔ وہ اس وقت عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/DB
شاہراؤں کا قاتل
فولکر ایکرٹ ٹرک چلایا کرتا تھا۔ اُس نے سن 2001 کے بعد پانچ برسوں میں نو خواتین کو قتل کیا۔ اُس نے پہلا قتل پندرہ برس کی عمر میں اپنی کلاس فیلو کا گلا گھونٹ کر کیا۔ ایکرٹ کے ہاتھوں قتل ہونے والی زیادہ تر خواتین طوائفیں تھیں۔ اُس نے دورانِ مقدمہ سن 2007 میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: Imago
موت کا فرشتہ
اسٹیفان لیٹر مرد نرسنگ اسٹاف سے منسلک تھا۔ اُس نے ہسپتال میں نوکری کرتے ہوئے باویریا میں انتیس افراد کو زہریلے انجکشن لگائے۔ یہ وارداتیں اُس نے سن 2003-04 میں کی تھیں۔ دوا کی چوری پر گرفتار ہوا اور پھر اُس نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس نے لاعلاج مریضوں کو موت کے ٹیکے لگا کر راحت پہنچائی ہے۔ وہ اس وقت عمر قید بھگت رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/U. Lein
قاتل مرد نرس
نیلز ہؤگل کا مقدمہ اس وقت جرمن عدالت میں زیرسماعت ہے۔ اُس نے ایک سو مریضوں کو خطرناک ٹیکے لگانے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کو سن 2015 میں دو افراد کی ہلاکت کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وسیع تر تفتیش کے دوران اُس کو ایک سو سے زائد مریضوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اُس کا مقدمہ اولڈن بیرگ کی عدالت میں سنا گیا اور ابھی سزا کا تعین ہونا باقی ہے۔ امکاناً اُسے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
13 تصاویر1 | 13
زیادہ تر تشدد میں قریبی جاننے والے ملوث ہوتے ہیں
یہی صورت حال جنسی جرائم کے ساتھ بھی ہے۔ کارشٹیڈٹ کے مطابق، ’’زیادہ تر جنسی تشدد اجنبیوں کی طرف سے نہیں بلکہ قریبی تعلقات میں ہوتا ہے، جیسے چچا، سوتیلا باپ، استاد یا کوچ۔‘‘
سوزانے کاراشٹڈ جو 25 سال پہلے جرمنی چھوڑ کر پہلے انگلینڈ اور پھر آسٹریلیا منتقل ہو گئیں، کہتی ہیں کہ جب بھی وہ اپنے آبائی شہر ہیمبرگ آتی ہیں تو ہمیشہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں، ’’یہاں تک کہ میٹرو میں بھی۔ مجموعی طور پر جرمنی ایک محفوظ اور دوستانہ ملک ہے، اگرچہ شاید آسٹریلیا جتنا دوستانہ نہیں۔‘‘
ج ا ⁄ ص ز (پیٹر ہِیلے، کیرا شاخٹ)
یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔