جرمنی میں کاربن گیسوں کا اخراج ستر سال کی نچلی ترین سطح پر
6 جنوری 2024
جرمنی میں 2023ء میں زہریلی کاربن گیسوں کے فضا میں اخراج کی سالانہ شرح پچھلے سات عشروں کی اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی۔ ماہرین کے مطابق ایسا اس لیے بھی ہوا کہ گزشتہ برس ملک میں توانائی کے لیے کوئلہ کم استعمال کیا گیا۔
اشتہار
جرمنی یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ختم ہونے والے سال 2023ء میں جرمنی سے فضا میں خارج ہونے والی ماحول دشمن گرین ہاؤس گیسوں کا مجموعی حجم اس لیے گزشتہ 70 برسوں کی اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا کہ اس دوران معدنی ایندھن کے طور پر کوئلے کا استعمال نہ صرف کم ہوا بلکہ اس کمی کی رفتار بھی غیر متوقع حد تک زیادہ رہی۔
جرمن معاشرے میں توانائی کے روایتی ذرائع کے مقابلے میں زیادہ ماحول دوست اور قابل تجدید ذرائع کے استعمال کے رجحان پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک 'آگورا اینرگی وَینڈے‘ کے مطابق یورپی یونین کے رکن اس ملک سے گزشتہ برس مجموعی طور پر 673 ملین ٹن گرین ہاؤس گیسیں فضا میں پہنچیں۔ یہ حجم 2022ء کے مقابلے میں 73 ملین ٹن کم بنتا ہے۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے متعلق ایک نئی تحقیقی رپورٹ میں آگورا کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ 2023ء میں جتنی کاربن گیسیں جرمنی سے زمینی فضا میں داخل ہوئیں، ان کا حجم 1950 کی دہائی سے اب تک کا کم ترین سالانہ حجم تھا۔
اس رپورٹ میں Agora Energiewende کی طرف سے مستقبل کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ جرمنی کو اپنے ہاں ان سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں آئندہ برسوں میں باقاعدہ ہدف بنا کر مزید فیصلہ کن کمی کرنا ہو گی۔
بجلی کی ترسیل کے نگران جرمن ادارے فیڈرل نیٹ ورک ایجنسی کے مطابق گزشتہ برس ملک میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بجلی کی مجموعی پیداوار کا 50 فیصد سے زائد قابل تجدید ذرائع سے حاصل کیا گیا۔
ہوائی توانائی کے رنگ اور اس کا مستقبل
اس وقت سات فیصد بجلی وِنڈ انرجی یا ہوائی توانائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ نئے بڑے ٹربائن زیادہ فعال اور روزگار کا باعث بن رہے ہیں۔ بجلی کے حصول میں اب ہوا پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔
تصویر: Jan Oelker
تب اور اب
ہوا کی قوت کا استعمال صدیوں سے کیا جا رہا ہے۔ انیسویں صدی میں یورپ میں ہزاروں پن چکیاں یا وِنڈ ٹربائن نصب کیے جا چکے تھے۔ ڈچ لوگوں نے دلدلی علاقوں کو خشک کرنے کے لیے بھی انہیں استعمال کیا۔ اس وقت ہوا سے بجلی پیدا کرنے کو ماحول دوست خیال کیا جاتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے دور میں ہوا سے بجلی کے حصول کو اہم خیال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ImageBroker/J. Tack
ہوا کوئلے سے بہتر ہے
وِنڈ ٹربائن سستی ترین بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ کوئلے یا جوہری پلانٹ سے بجلی پیدا کرنا دو سے تین گنا مہنگا ہے۔ خشکی پر ہوا سے بجلی پیدا کرنا خاصا سستا ہے۔ سمندروں میں ہوا مسلسل چلتی ہے اور مختلف خالی مقامات پر ٹربائن لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ ہوا سے بجلی کا حصول انتہائی سستا ہے۔
تصویر: picture alliance / Zoonar
بیس گنا زیادہ بجلی
شمالی جرمنی میں ولہلمز ہاون میں نصب ایک بڑے وِنڈ ٹربائن سے چھ ہزار کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور یہ دس ہزار لوگوں کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ پچیس برس پرانے بڑے ٹربائن صرف پانچ سو کلو واٹ ہی بجلی پیدا کر سکتے تھے۔ ہوا سے چلنے والے جدید ٹربائن کی بلندی بھی اب ایک سو اسی میٹر تک جا پہنچی ہے۔ جتنے یہ بلند ہوں گے اتنی زیادہ ہوا حاصل کر سکتے ہیں۔
تصویر: Ulrich Wirrwar/Siemens AG
سمندروں میں وِنڈ ٹربائن
سمندروں میں ہوا مسلسل اور تیز ہوتی ہے۔ پانچ فیصد بجلی سمندروں میں نصب ٹربائن مہیا کرتے ہیں۔ نیدرلینڈز میں بھی سمندروں میں وِنڈ ٹربائن کا ایک پارک ہے۔ سمندر سے بجلی کا حصول سن 2025 تک بڑھ کر پندرہ ہزار کلوواٹ ہو جائے گا جو چالیس ہزار لوگوں کی ضروریات پوری کرے گا۔ سمندروں میں ٹربائن کی تنصیب ایک مہنگا عمل ہے۔
تصویر: Siemens Gamesa
چین کی سبقت
اس وقت سب سے زیادہ وِنڈ ٹربائن کی تنصیب چین میں جاری ہے۔ سن 2020 کے دوران چین میں نصب کیے جانے والے وِنڈ ٹربائنز سے 52 گیگا واٹس بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ بجلی 50 جوہری پاور پلانٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کے برابر ہے۔ وِنڈ انرجی کی شروعات کرنے والے ممالک جرمنی اور ڈنمارک ہیں۔ ڈنمارک وِنڈ انرجی سے اپنی 50 فیصد بجلی کی ضرورت پوری کر رہا ہے جب کہ جرمنی صرف 25 فیصد اپنی ضروریات ہوا سے حاصل کر رہا ہے۔
دنیا بھر میں وِنڈ انرجی انڈسٹری سے وابستہ افراد کی تعداد تیرہ لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد کو چین میں جب کہ امریکا میں ایک لاکھ دس ہزار اور نوے ہزار جرمنی میں اس شعبے میں کام کرتے ہیں۔ بھارت میں وابستہ افراد کی تعداد پینتالیس ہزار اور برازیل میں چالیس ہزار ہے۔ ونڈ انرجی کے ٹربائن کو نصب کرنے پر کوئلے کے پلانٹ سے کم خرچ آتا ہے اور اس میں ترقی سے روزگار کے زیادہ مواقع جنم لیں گے۔
تصویر: Paul Langrock/Siemens AG
شہری بھی منافع کے حصہ دار
کئی شہروں میں پہلے پہل وِنڈ ٹربائن نصب کرنے میں لوگوں نے مزاحمت کی لیکن اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ کئی شہروں میں لوگ ٹربائن نصب کرنے میں سرمایہ کاری کر کے منافع میں حصہ دار بھی ہیں۔ ایسے شہروں میں جرمن قصبہ اشٹارکن بُرگ بھی شامل ہے۔ فرینکفرٹ کے نواح میں واقع اس قصبے میں لوگوں نے وِنڈ انرجی کے توسیعی سلسلے میں سرمایہ کاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور انہیں منافع میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
تصویر: Energiegenossenschaft Starkenburg eG
مال بردار جہاز اور ڈیزل کی بچت
ماضی کی طرح اب بھی سمندروں میں مال بردار بحری جہاز ڈیزل انجن کے ذریعے سفر جاری رکھتے ہیں۔ اب ان جہازوں کو وِنڈ ٹربائن کے ساتھ جوڑنے کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔ اس عمل سے مال برداری کے کرایوں میں تیس فیصد کی کمی ممکن ہے۔ مستقبل میں مال بردار بحری جہاز ماحول دوست سبز ہائیڈروجن کا بھی استعمال کر سکیں گے۔
تصویر: Skysails
تیرتے ہوائی توانائی کے پلیٹ فارم
سمندروں کو وِنڈ انرجی کا بڑا ماخذ خیال کیا جاتا ہے لیکن کئی مقامات پر سمندر بہت زیادہ گہرے ہیں اور ایسی جگہوں پر وِنڈ ٹربائن نصب کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اب اس کا حل تیرتے ٹربائن پلیٹ فارم میں ڈھونڈا گیا ہے۔ ان تیرتے ٹربائن پلیٹ فارمز کو زنجیروں سے جوڑ دیا جائے گا۔ ایسے تیرتے پلیٹ فارم یورپ اور جاپان میں قائم کیے جا چکے ہیں اور مستحکم ہیں۔
تصویر: vestas.com
وِنڈ پاور اور گھر
ایک سو سینتالیس میٹر بلند وِنڈ ٹربائن مستقبل میں توانائی فراہم کریں گے اور یہ دیکھنے میں بھی خوبصورت لگتے ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والا ٹربائین لندن میں نصب ہے۔ کئی ٹربائن گھروں پر بھی نصب ہو سکیں گے اور یہ کمرشل مقاصد کے لیے نہیں ہوں گے۔ عام طور پر شہروں میں ہوا کی رفتار کم ہوتی ہے اور گھروں میں وولٹائی سیلوں یا شمسی توانائی ایک مفید ذریعہ ہے بجلی حاصل کرنے کا۔
تصویر: picture-alliance/Global Warming Images/A. Cooper
زیادہ ماحول دوست
تنصیب کے تین سے گیارہ مہینوں کے دوران وِنڈ ٹربائن سے ضرورت کے مطابق بجلی کا حصول شروع ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج صفر ہے۔ توانائی کا یہ ذریعہ فطرت سے جڑا ہے۔ جرمن ماحولیاتی ایجنسی کے مطابق ایک وِنڈ ٹربائن پر لاگت کوئلے سے چلنے والے پلانٹ سے ستر فیصد کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Tack
وِنڈ پاور کہاں کہاں؟
ہوا اور شمسی توانائی سے دنیا بھر کی توانائی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ وِنڈ ٹربائن سے بجلی کی ترسیل اس وقت شروع ہوتی ہے جب ہوا کی رفتار دس کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جاتی ہے۔ جہاں سورج کی روشنی زیادہ میسر ہوتی ہے وہاں فوٹو وولٹائی سیلوں سے سستی بجلی حاصل ہو سکتی ہے۔ خطِ استوا کے قریب ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی کا حصول ممکن ہے۔ جن علاقوں میں ہوا تیز چلتی ہے، وہاں وِنڈ انرجی بڑا توانائی کا ذریعہ ہے۔
تصویر: www.vestas.com
12 تصاویر1 | 12
اس طرح بجلی کی اس پیداوار میں کوئلے کے استعمال کا حصہ 2022ء میں 34 فیصد سے کم ہو کر 2023ء میں 26 فیصد رہ گیا۔ آگورا کے سربراہ زیمون میولر نے بتایا کہ سالانہ بنیادوں پر بجلی کی پیداوار میں کوئلے کے استعمال میں اس واضح کمی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ صرف اس وجہ سے ہی زہریلی گیسوں کے اخراج میں 46 ملین ٹن کی کمی ہوئی۔
جرمنی نے اپنے لیے یہ ہدف طے کر رکھا ہے کہ 2030ء تک بجلی کی کُل پیداوار کا 80 فیصد قابل تجدید ذرائع سے پیدا کیا جائے گا، جس کا مطلب زیادہ تر ونڈ انرجی اور سولر انرجی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پچھلے سال کے ڈیٹا کی روشنی میں جرمنی رواں دہائی کے آخر تک کے اپنےاس ہدف کے کچھ اور قریب آ گیا ہے۔