کورونا وائرس کی وبا نے جرمنی میں زیادہ ہسپتالوں کی بحث کو پھر سے شروع کر دیا ہے۔ ہسپتالوں کی زیادہ تعداد کووڈ انیس سے نمٹنے ميں انتہائی مفید رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Rumpenhorst
اشتہار
حالیہ چند مہینوں میں جرمن ہیلتھ سیکٹر اور ہیلتھ اکانومی کے ماہرین اس بارے ميں زور و شور سے بحث کر رہے تھے کہ جرمنی میں ضرورت سے زیادہ ہسپتال موجود ہیں اور ان میں سے بہت ساروں کو بند کرنا بہتر رہے گا۔ دوسری جانب کورونا وائرس کی وبا کے دوران بیرون جرمنی یہ سوال گردش کرتا رہا ہے کہ بقیہ یورپی ملکوں کی طرح اس ملک میں ہلاکتیں انتہائی زیادہ نہیں رہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خاص طور پر فرانس، اٹلی اور اسپین میں جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں، ان کے مقابلے میں جرمنی میں اور کورونا وائرس کا پھيلاؤ اور ہلاکتیں قابو میں رہی ہیں۔
اس تناظر میں یورپی تنظیم برائے اقتصادی و ترقیاتی تعاون (OECD) نے جو بڑی وجہ بیان کی ہے اُس کے مطابق جرمنی میں ہسپتالوں کی زیادہ تعداد اور آبادی کے تناسب کے لحاظ سے انتہائی نگہداشت کے یونٹ بھی فرانس سے دوگنا اور اٹلی یا اسپین سے چار گنا زیادہ ہیں۔ تنظیم نے مزید کہا کہ زیادہ ہسپتالوں کی وجہ سے جرمنی ایک بہت بڑی مصیبت سے محفوظ رہا۔ خیال کیا گیا کہ اب بظاہر اُن آوازوں پر خاموشی چھا گئی ہے جو جرمنی میں زیادہ ہسپتالوں میں کمی لانے کو وقت کی ضرورت قرار دیتی تھیں۔
اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ایک لاکھ شہریوں کے لیے انتہائی نگہداشت یونٹس میں اوسطاً 33.9 فیصد بستر موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں فرانس میں ایک لاکھ آبادی کے لیے انتہائی نگہداشت یونٹس میں 16.3 فیصد بستر دستیاب ہیں جب کے اٹلی میں اتنی ہی آبادی کے لیے 8.6 فیصد بستر ہیں۔ امریکا میں ایک لاکھ آبادی کے لیے انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں بستر کی دستیابی کا تناسب تیس فیصد ہے۔
اعداد و شمار میں بہتری اپنی جگہ لیکن جرمنی میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل برٹلزمان فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ حکومت کو پیش کی گئی تھی اور اس میں تجویز کیا گیا تھا کہ ملک میں ہسپتالوں کی تعداد کو کم کر کے انتہائی بڑے ہسپتال کو سامنے لایا جائے۔ اس رپورٹ میں ایک بڑی تعداد میں ہسپتالوں کو بند کردينے کی بھی تجویز دی گئ تھی۔ برٹلزمان فاؤنڈیشن نے کل چودہ سو ہسپتالوں میں سے آٹھ سو کو غیر ضروری، اضافی اور اقتصادی بوجھ خیال کیا تھا۔ فاؤنڈیشن نے اپنی رپورٹ میں صرف چھ سو ہسپتالوں کو فعال رکھنا اہم قرار دیا۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی کے کئی چھوٹے ہسپتالوں میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہے اور ان میں ناقص طبی آلات زیر استعمال ہیں۔ ہسپتالوں کی تعداد میں کمی لانے کی رپورٹ کو مرتب کرنے میں انسٹیٹیوٹ برائے گلوبل اینوائرنمنٹل اسٹریٹیجیز (IGES) بھی شامل تھا۔
کورونا وائرس کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اب پہلے سے چھڑی ہوئی بحث میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ زیادہ ہسپتال جرمنی کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے کووڈ انیس بیماری کے مریضوں کی تعداد کے علاوہ اموات بھی کنٹرول میں رہی ہیں۔ اس حلقے کا کہنا ہے کہ اگر گزشتہ برس مرتب کی جانے والی برٹلز مان فاؤنڈیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد ہو جاتا تو حالیہ مہلک وبا کے دور میں انتہائی نگہداشت کے یونٹس کم ہوتے اور مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔
اندریاس بیکر (ع ح، ع ا)
کورونا وائرس اور ممکنہ سات ماحولیاتی تبدیلیاں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد لاک ڈاؤن کی صورت حال نے انسانی معاشرت پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ وبا زمین کے ماحول پر بھی انمٹ نقوش ثبت کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
ہوا کی کوالٹی بہتر ہو گئی
دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے صنعتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے والے دھوئیں کے اخراج میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج بھی کم ہو چکا ہے۔ اس باعث ہوا کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم
کووِڈ انیس کی وبا نے اقتصادی معمولات میں بندش پیدا کر رکھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ صرف چین میں اس گیس کے اخراج میں پچیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی عارضی ہے۔
وائرس کی وبا نے انسانوں کو گھروں میں محدود کر رکھا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں شہروں کے قریب رہنے والی جنگلی حیات کے مزے ہو گئے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے اور پارکس میں مختلف قسم کے پرندے اور زمین کے اندر رہنے جانور اطمینان کے ساتھ پھرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Bernhardt
جنگلی حیات کی تجارت کا معاملہ
ماحول پسندوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کووِڈ انیس کی وبا کے پھیلنے سے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اقوام سنجیدگی دکھائیں گے۔ قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس کی وبا چینی شہر ووہان سے کسے جنگلی جانور کی فروخت سے پھیلی تھی۔ ایسی تجارت کرنے والوں کے خلاف اجتماعی کریک ڈاؤن بہت مثبت ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lalit
آبی گزر گاہیں بھی شفاف ہو گئیں
اٹلی میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کیے گئے لاک ڈاؤن کے چند روز بعد ہی وینس کی آبی گزرگاہیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ ان شہری نہروں میں صاف نیلے پانی کو دیکھنا مقامی لوگوں کا خواب بن گیا تھا جو اس وبا نے پورا کر دیا۔ اسی طرح پہاڑی ندیاں بھی صاف پانی کی گزرگاہیں بن چکی ہیں۔
تصویر: Reuterts/M. Silvestri
پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ
کورونا وائرس کی وبا کا ماحول پر جو شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے وہ ڈسپوزایبل پلاسٹک یعنی صرف ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے۔ کلینیکس اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ڈسپوزایبل دستانے اب شاپنگ مارکیٹوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P.Pleul
ماحولیاتی بحران نظرانداز
کووِڈ انیس کی وبا کے تیزی سے پھیلنے پر حکومتوں نے ہنگامی حالات کے پیش نظر ماحولیاتی آلودگی کے بحران کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا۔ ماحول پسندوں نے واضح کیا ہے کہ وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں اور اہم فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر بھی زمین کے مکینوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس پہلے ہی اگلے برس تک ملتوی ہو چکی ہے۔