جرمنی میں سال کی پہلی فلم مارکیٹ
10 فروری 2009سوٹزرلینڈ میں ایک سینما کی مالک اورکثیرالجہت شخصیت کی حامل ترک نسل خاتون بیکی پروبسٹ گذشتہ 20 برسوں سے یورپین فلم مارکیٹ کی قیادت کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ ہم اس سال کی پہلی فلم مارکیٹ ہیں۔ میرے خیال میں ہماری مثال ایک کاروباری بیرومیٹر کی سی ہے۔ یہاں ہم محسوس نہیں کرتے کہ ہم اس وقت بحرانی حالات سے گزر رہے ہیں‘‘۔
ان کے خیال میں بین الاقوامی بنکوں اور مالیاتی بحرانوں کے باوجود فلمی صنعت متاثر نہیں ہوگی۔ اپنی اس امید افزائی کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’ لوگوں کو فلموں کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ان کے لئے اورکوئی چارہ کار بھی نہیں‘‘۔
یورپ کے برعکس امریکی فلم انڈسٹری کو سرکاری اعانت دستیاب نہیں۔ اس کا زیادہ تر دارومداربنک قرضوں پرہے۔ اب جبکہ بنک خود بحران کی لپیٹ میں ہیں، ان کے لئے قرضوں کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔
اس بارے میں برطانوی فلمی جریدے ’سکرین انٹرنیشنل‘ کے صحافی مارٹن بلینے کا کہنا ہے:’’امریکہ کے فلم ساز اب بھارت یا عرب ملکوں میں دیگر امکانی صورتوں کی تلاش میں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہنگری، رومانیہ ، روس یا قازقستان وغیرہ کا رخ کر رہے ہیں تا کہ سستے داموں فلمیں تیار کی جا سکیں‘‘۔
گذشتہ دو برسوں سے اب وہ جرمنی کا بھی رخ کررہے ہیں۔ کیونکہ یہاں پوٹسڈم بابیلزبرگ اورمیونخ جیسے شہروں میں بڑے فلمی اسٹوڈیو اوردیگرسہولیات موجود ہیں۔
عالمگیریت کے دورمیں دوردرازواقع ملکوں کی کہانیوں میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ انسان سینما گھرکا رخ کرتا ہے تا کہ اپنے شہر میں موجود ہوتے ہوئے بھی دور کے ملکوں کی سیر کرسکے۔ یہ محض اتفاق کی بات نہیں کہ ایشیا، افریقہ اورلاطینی امریکہ کے بارے میں تیارکی جانے والی یورپی دستاویزی فلمیں بے حد مقبول ہیں۔