جرمنی میں ساڑھے چھ ملین انسانوں کی داخلی نقل مکانی
28 مارچ 2021
جرمنی میں گزشتہ تیس برسوں کے دوران تقریباﹰ ساڑھے چھ ملین باشندوں نے داخلی نقل مکانی کی۔ اس دوران ملک کے مشرق میں نئے وفاقی صوبوں سے پرانے مغربی صوبوں میں نقل مکانی کا رجحان مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی سے کہیں زیادہ رہا۔
اشتہار
جرمنی کے 1990ء میں دوبارہ اتحاد سے پہلے سابقہ مشرقی جرمن ریاست یا جی ڈی آر ایک کمیونسٹ نظام حکومت والا ملک تھا جبکہ مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک پارلیمانی جمہوری ریاست۔ منقسم جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو گزشتہ برس اکتوبر میں ٹھیک تیس سال ہو گئے تھے۔
دوبارہ اتحاد کے بعد وسیع تر نقل مکانی
انیس سو نواسی میں دیوار برلن کے گرائے جانے کے نتیجے میں ممکن ہونے والے جرمن اتحاد کے حقیقت بن جانے کے بعد متحدہ جرمنی کے مشرقی اور مغربی یا نئے اور پرانے وفاقی صوبوں کے مابین وسیع تر عوامی نقل مکانی شروع ہو گئی تھی۔
اس دوران مشرق سے مغرب کی طرف نقل مکانی کا رجحان زیادہ تھا کیونکہ سابقہ مشرقی جرمنی کے عام شہری خاص کر نوجوان اپنے لیے روزگار اور زندگی میں مادی کامیابی کے نئے مواقع کی تلاش میں تھے۔ پرانے یا مغربی صوبوں سے مشرق کی طرف بھی نقل مکانی ہوئی تھی مگر وہ بہت کم رہی تھی۔
اس حوالے سے جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ میں بائیں باز وکی سیاسی جماعت 'دی لِنکے‘ کے ایک رکن کی طرف سے پوچھے جانے والے سوال کا جو سرکاری جواب دیا گیا، وہ کئی اہم حقائق کا پتا دیتا ہے۔
وفاقی دفتر شماریات کے مطابق 1991ء سے لے کر 2019ء تک کے تین عشروں کے دوران ملک کے مشرق میں نئے وفاقی صوبوں سے کُل 3.86 ملین شہری رہائش کے لیے پرانے وفاقی صوبوں میں منتقل ہوئے۔ اس کے برعکس اسی عرصے میں پرانے مغربی صوبوں سے مشرق کی طرف نئے وفاقی صوبوں میں جا کر رہائش اختیار کرنے والے شہریوں کی مجموعی تعداد 2.63 ملین رہی۔
اشتہار
ابتدائی برسوں میں نقل مکانی بہت زیادہ رہی
برلن میں وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق جرمن اتحاد کے بعد شروع کے چند برسوں کے دوران ملک میں داخلی نقل مکانی کا رجحان بہت زیادہ تھا، جو اب کافی کم ہو چکا ہے۔
سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد 3 اکتوبر 1989ء کو وجود میں آیا۔ دارالحکومت برلن منقسم جرمنی کی ایک علامت ہے۔ سردجنگ اور جرمن یوم اتحاد کا منظر پیش کرتے اس شہر کے تاریخی مقامات کے ماضی اور حال کی چند تصاویری جھلکیاں۔
برانڈن برگ گیٹ
یہ برلن کے مشہور ترین عوامی مقامات میں سے ایک ہے۔ برانڈن برگ گیٹ سن 1791 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ گیٹ سابقہ مشرقی اور مغربی برلن کی سرحد کی نشاندہی بھی کرتا تھا۔ سن 1989ء کے موسم خزاں سے یہ گیٹ ایک رکاوٹ کے بجائے ایک نئے آغاز کی علامت بن چکا ہے۔
دیوار برلن
اٹھائیس سالوں تک اس دیوار نے برلن شہر کو منقسم رکھا۔ لگ بھگ 160 ساٹھ کلو میٹر کی اس سرحدی دیوار کے گرد سخت سکیورٹی نافذ تھی۔ متعدد افراد دیوار عبور کرنے کی کوششوں میں ہلاک ہوگئے۔ ایسٹ سائڈ گیلری میں دیوار برلن کے زیادہ تر ٹکڑے جمع کیے گئے ہیں، جس پر قومی اور بین الاقوامی فنکار اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔
سن 1989 تک ہوہن شؤن ہاؤزن ریاستی سکیورٹی کی ایک مرکزی جیل تھی۔ اس حراستی مرکز میں سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا اور ان کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جیل کی اونچی دیواروں کی وجہ سے یہ ایک خفیہ مقام تھا اور یہ عمارت شہری نقشے میں شامل نہیں تھی۔ دوبارہ اتحاد کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔ چند سالوں بعد اسے یادگار کے طور پر عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
برلن میں لینن - فریڈرش شائن
سرخ گرینائٹ پتھر سے تعمیر کیا گیا لینن کا انیس میٹر اونچا دیو پیکر مجمسہ سن 1970 سے 1991ء تک فریڈرش شائن میں قائم تھا۔ اس مجمسہ کی نقاب کشائی کے موقع پر دو لاکھ افراد جمع ہوئے تھے۔ بیس برس بعد کمیونزم کے نظام کے خاتمےکے ساتھ ساتھ اس مجسمے کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ ’لینن اسکوائر‘ اب ’اقوام متحدہ اسکوائر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ریپبلک پیلیس سے برلن محل تک
یہ محل جرمن ڈیموکریٹک ریبپلک (جی ڈی آر) کے اقتدار کا مرکز تھا۔ ریپبلک پیلیس آف برلن کا افتتاح سن 1976 میں کیا گیا تھا۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی متحدہ ریاست وجود میں آنے کے بعد سن 2006 سے 2008ء کے دوران اس محل کو مسمار کر دیا گیا۔ اب یہاں تاریخی برلن سٹی پیلیس کے ساتھ متنازعہ ہمبولٹ فورم تعمیر کیا گیا۔
جی ڈی آر کی انٹر شاپس
جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کی ایک ریٹیلر چین کا نام ’انٹر شاپ‘ تھا۔ اس شاپ میں جی ڈی آر کی کرنسی کے بجائے غیر ملکی کرنسی میں رقم ادا کی جاسکتی تھی۔ اس وجہ سے جی ڈی آر کے شہری انٹر شاپس سے صرف خاص نوعیت کا سامان خریدتے تھے۔ یہ تصویر مشرقی برلن کے فریڈرش اشتراسے اسٹیشن کے پاس واقع انٹر شاپ کی ہے۔ آج یہ چوک متعدد دکانوں اور بوتیکس سے بھرا ہوا ہے۔
بچوں کے کھیل کے میدان
سابقہ مشرقی جرمنی کے ہر کھیل کے میدان میں یہ ’لوہے کے پنجرے نما گولے‘ موجود ہوتے تھے، جس پر بچے مل کر چڑھتے تھے۔ اب یہ جھولے رسی سے بندھے جال میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
تیرہ منزلہ ہوٹل
سن 1977 میں سابقہ مشرقی برلن کے علاقے فریڈرش اشتراسے پر تیرہ منزلہ انٹر ہوٹل میٹروپول کا افتتاح کیا گیا۔ کاروباری افراد، سفارت کار اور مشہور شخصیات اس ہوٹل میں قیام کرتے تھے۔ جی ڈی آر کے زیادہ تر شہری اس ہوٹل کا صرف باہر سے ہی نظارہ کرتے تھے۔ اب یہاں میریٹم ہوٹلز سلسلے کا ایک ہوٹل قائم ہے۔
مغرب کا شاپنگ سینٹر - کا ڈے وے
کاؤف ہاؤس دیس ویسٹینس یعنی مغرب کا شاپنگ سینٹر - جرمنی کا سب سے مشہور شاپنگ سینٹر ہے۔ 60 ہزار مربع میٹر کے رقبے پر مشتمل یہ شاپنگ سینٹر سن 1907 میں کھولا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ سابقہ مغربی برلن میں واقع یہ شاپنگ سینٹر سیاحوں کے لیے ایک پر کشش مقام خیال کیا جاتا ہے۔
مزید یہ کہ پچھلے تین عشروں میں ملک کے مشرق میں واقع نئے وفاقی صوبوں میں بھی اتنی زیادہ ترقی ہو چکی ہے کہ اب مغرب سے مشرق کی طرف جانا بھی ایک بہتر امکان ہے، جس سے عام جرمن باشندے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اتحاد اور انضمام ایک مسلسل عمل
وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق متحدہ جرمنی میں داخلی نقل مکانی کا سابقہ مشرق اور سابقہ مغرب کی بنیاد پر تو جائزہ لیا جا سکتا ہے لیکن اگر تمام سولہ وفاقی صوبوں میں سے ہر ایک کو مقامی آبادی میں نقل مکانی کے کم یا زیادہ رجحان کے باعث پیش آنے والے حالات کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے، تو سبھی صوبوں کے بارے میں ایک سا نتیجہ اخذ کرنا بہت مشکل ہو گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عام شہریوں میں نقل مکانی کے اس رجحان کا تجربہ سبھی وفاقی صوبوں کو ہوا مگر کہیں اس وجہ سے مقامی آبادی میں اضافہ ہوا تو کہیں کمی۔ لیکن مجموعی طور پر جرمنی کا اقتصادی اور سماجی اتحاد و انضمام جاری ہے، جو ایک مسلسل معاشی اور معاشرتی عمل ہے اور جس کا فائدہ پورے جرمنی، تمام جرمنوں اور اس ملک میں رہنے والے سبھی باشندوں کو پہنچ رہا ہے۔
م م / ب ج (ڈی پی اے)
328 دن: انقلاب سے ریاستی معاہدے تک
عوام کی طاقت اور غلطی سے زبان سے نکل جانے والا ایک لفظ: نومبر 1989ء کی ایک رات شروع ہونے والے انقلاب نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے تب تک ناممکن تصور کیے جانے والے دوبارہ اتحاد کو 328 روز میں پایہٴ تکمیل تک بھی پہنچا دیا۔
تصویر: DHM, Peter M. Mombaur
’’... فوراً، بلاتاخیر‘‘
نو نومبر 1989ء: گنٹر شابووسکی کی زبان سے نادانستگی میں نکلے ہوئے یہ الفاظ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک GDR کے شہریوں کے لیے سفر کی آزادی کا پیغام بن گئے۔ پھر عوام کے جذبات کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ مشرقی برلن کے ہزاروں شہریوں نے سرحدی راستوں پر دھاوا بول دیا۔ مغربی برلن میں اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
کمیونسٹ ریاست کو بچانے کی آخری کوششیں
تیرہ نومبر 1989ء: ڈریسڈن شہر میں سوشلسٹ یونٹی پارٹی کے ضلعی سربراہ ہنس مودروف کی کوشش ہے کہ جتنا کچھ بچ سکتا ہے، بچا لیا جائے۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے چار روز بعد پیپلز چیمبر نے اُنہیں وزارتی کونسل کا چیئرمین منتخب کر لیا لیکن اراکینِ اسمبلی اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ اراکین نے تب تک انتہائی طاقتور چلی آ رہی سوشلسٹ یونٹی پارٹی کی حمایت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
کوہل نے قدم اٹھانے میں دیر نہیں کی
28 نومبر 1989ء: یہ وہ دن تھا، جب اُس وقت کے وفاقی جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے جرمن پارلیمان میں اپنا دَس نکاتی منصوبہ پیش کیا، جس نے ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ فرانسیسی وزیر خارجہ رولانڈ دُوماس کہہ اُٹھے کہ جرمنوں میں ’بڑھتا ہوا غرور‘ نظر آ رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے نظام الاوقات کی حیثیت کے حامل اس منصوبے کے اعلان سے پہلے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
پرانی قیادت مستعفی ہو گئی
تین دسمبر 1989ء: پولٹ بیورو اور مرکزی کمیٹی عوامی دباؤ کے سامنے نہیں ٹھہر سکے اور مستعفی ہو گئے۔ استعفیٰ دینے والوں میں ایگون کرینس بھی شامل تھے، جنہوں نے GDR کی شہری حقوق کی تحریکوں کو مراعات دیتے ہوئے ریاست کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Peter Kroh
الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ
19 دسمبر 1989ء: ہیلموٹ کوہل کی ڈریسڈن کے ’چرچ آف آور لیڈی‘ نامی گرجا گھر کے سامنے تقریر ایک جذباتی نقطہٴ عروج تھی۔ اُن کے الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ مشرقی جرمنی کے لاکھوں شہریوں کے دل کی آواز بن گیا۔ اُنہوں نے امن اور آزادی میں دونوں ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کو اپنا نصب العین قراردیا۔
تصویر: imago/Sven Simon
آزادانہ انتخابات کے غیر متوقع نتائج
18 مارچ 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی قومی اسمبلی کے انتخابات۔ ہیلموٹ کوہل خود انتخابی مہم پر نکلے۔ اُنہیں سننے کے لیے لاکھوں لوگ جلسوں میں شریک ہوئے۔ عام طور یہی سمجھا جا رہا تھا کہ میدان سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھ رہے گا لیکن حتمی نتائج سامنے آئے تو غیر متوقع طور پر کوہل اور اُن کی اتحادی جماعتیں کو فتح حاصل ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kroh
جرمن مارک کی آمد آمد
یکم جولائی 1990ء: تب تک دوبارہ اتحاد ایک مسلمہ حقیقت بنتا نظر آ رہا تھا اور مشرقی جرمنی میں بھی آزاد معاشی اصول رائج کرنے کی بات کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اٹھارہ مئی کو بون میں دونوں ریاستوں کے درمیان اقتصادی، کرنسی اور سوشل یونین بنانے کے ایک ریاستی معاہدے پر دستخط کیے گئے اور یوں جی ڈی آر کے عوام کو بھی کرنسی جرمن مارک حاصل ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
گورباچوف نے جرمن اتحاد کے لیے ہاں کر دی
پندرہ اور سولہ جولائی 1990ء: متحدہ جرمنی کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا تصور ماسکو قیادت کی نظر میں دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ تاہم جب نیٹو نے مدافعانہ طرزِ عمل اختیار کیا تو ماسکو حکومت کو بھی اطمینان ہوگیا اور قفقاز میں ہیلموٹ کوہل نے گورباچوف سے یہ رضامندی حاصل کر لی کہ متحدہ جرمنی نیٹو کا حصہ بنے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی جرمن اسمبلی کے لیے تاریخی دن
23 اگست 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک رپبلک کے اراکینِ اسمبلی نے وفاقی جمہوریہٴ جرمنی میں شمولیت کی منظوری دے دی۔ پی ڈی ایس کے سربراہ گریگور گیزی کے اس تبصرے پر اراکین ہنسنے لگے کہ پارلیمان نے اس منظوری کے ساتھ دراصل جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کے خاتمے کی منظوری دی ہے۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
حتمی معاہدے کی راہ میں آخری رکاوٹ
بارہ ستمبر 1990ء: آخر میں معاملہ پیسے پر آ کر اٹک گیا تھا۔ بون کی وفاقی جرمن حکومت سوویت یونین کو مشرقی جرمنی سے سرخ فوج کے انخلاء کے لیے زرِ تلافی کے طور پر بارہ ارب جرمن مارک کی پیشکش کر رہی تھی جبکہ گورباچوف یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کم ہے۔ کوہل پہلے تو اپنی پیشکش پر جمے رہے، پھر اس پیشکش میں تین ارب کے قرضوں کا اضافہ کر دیا۔ یوں ’دو جمع چار معاہدے‘ کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
تصویر: Imago/S. Simon
نئے جرمنی کا پہلا دن
تین اکتوبر 1990ء: نیویارک میں دوسری عالمی جنگ کی فاتح طاقتوں کے وُزرائےخارجہ تمام خصوصی حقوق سے دستبردار ہو گئے۔ سابق مشرقی جرمن کمیونسٹ ریاست کی اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا، جس میں GDR نے وارسا پیکٹ سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ برلن کی اسمبلی کی عمارت رائش ٹاگ کے سامنے نصف شب سے جرمن پرچم لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر دو ملین افراد موجود تھے۔