جرمن ٹیکس حکام کی جاسوسی کرنے والے ایک سوئس شہری کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ اس چوّن سالہ ملزم پر الزام ہے کہ اس نے چار سال تک جاسوسی کی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن حکام کے حوالے سے اٹھارہ اکتوبر بروز بدھ بتایا کہ ایک سوئس شہری پر جرمن ٹیکس حکام کی جاسوسی کرنے کے الزامات کے تحت مقدمے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس چوّن سالہ ملزم کی شناخت ڈینیئل ایم کے نام سے کی گئی ہے۔
فرینکفرٹ کی ایک عدالت میں شرو ع ہونے والے اس مقدمے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے حکام نے اس شک کا اظہار کیا ہے کہ اس جاسوس کو سوئس حکام نے معلومات اکٹھا کرنے کے مشن پرروانہ کیا تھا۔
جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق اس ملزم نے چار سال تک جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی ٹیکس اتھارٹی اور کچھ ٹیکس حکام کی جاسوسی کی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ اس کی طرف سے جاسوسی کا یہ عمل فروری سن دو ہزار پندرہ تک جاری رہا تھا۔ ملزم کو اپریل میں گرفتار کیا گیا تھا۔
حکام کو اس پر شک تھا کہ اس نے یہ کھوج لگانے کی کوشش کی تھی کہ وفاقی جرمن ریاستیں کس طرح سوئس بینکوں سے ڈیٹا حاصل کرتی ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کن جرمن شہریوں کے سوئس بینکوں میں اکاؤنٹس ہیں۔
ڈینیئل کی کوشش تھی کہ وہ اس نظام کے بارے میں معلومات جمع کر کے یہ پتہ چلا سکے کہ جرمن حکام کو سوئس بینکوں میں جرمن شہریوں کے اکاؤنٹس کے بارے میں علم کیسے ہوتا ہے۔
وفاقی جرمن دفتر استغاثہ نے بتایا کہ اس ملزم نے کچھ ٹیکس حکام سے متعلق ذاتی معلومات بھی جمع کر لی تھیں تاکہ بعد میں سوئس حکام ایسے ٹیکس معائنہ کاروں کے خلاف کارروائی کر سکیں، جن سے جرمن حکام نے بعد ازاں ٹیکس چوری کے ڈیٹا پر مشتمل سی ڈیز خریدی تھیں۔
بتایا گیا ہے کہ اس کام کے لیے ملزم نے قریب تیرہ ہزار یورو وصول کیے تھے، جن میں سے اس نے تقریباﹰ دس ہزار یورو ایک جرمن سکیورٹی فرم کو بھی دیے تھے، جس نے ڈینیئل کو ان معلومات تک رسائی میں مدد فراہم کی تھی۔
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت نے کئی سالوں سے ایک مہم شروع کر رکھی ہے، جس کے تحت وہ ایسی خفیہ معلومات جمع کرتی ہے۔ اس مہم کا مقصد دراصل ایسے جرمنوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوتا ہے، جنہوں نے ٹیکس چوری کی خاطر بیرون ملک خفیہ بینک اکاؤنٹ کھولے ہوتے ہیں۔
سن دو ہزار دس سے اب تک یہ جرمن صوبہ ایسے منصوبہ جات پر 17.9 ملین یورو خرچ کر چکا ہے اور ان معلومات کی بنیاد پر حکام ٹیکس ریونیو کی مد میں ریاستی خزانے کے لیے سات بلین یورو کی رقوم وصول کر چکے ہیں۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔