جرمن حکومت نے ملک میں سیاسی پناہ کے حصول سے متعلق انسانوں کے اسمگلروں کی جانب سے پھیلائی جانے والی افواہوں کے تدارک اور درست معلومات عام کرنے کے لیے ایک خصوصی ویب سائٹ شروع کی ہے۔
اشتہار
جرمن حکومت نے ’جرمنی کے بارے میں افواہیں‘ نامی ایک خصوصی ویب سائٹ کا آغاز کیا ہے۔ اس ویب سائٹ پر جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول سے متعلق پھیلائی جانے والی افواہوں کے جوابات اور پناہ کے قوانین سے متعلق حقائق شائع کیے جا رہے ہیں۔
جرمن حکومت کے مطابق انسانوں کے اسمگلر جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے بارے میں جھوٹ پر مبنی افواہیں پھیلا کر لوگوں کو اس یورپی ملک میں اچھے مستقبل کا جھانسہ دیتے ہیں۔ ایسی ہی غلط معلومات کو بے نقاب کرنے اور لوگوں تک حقائق پہنچانے کے لیے یہ خصوصی ویب سائٹ شروع کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر انگریزی، جرمن اور عربی زبان میں معلومات مہیا کی گئی ہیں۔
جرمنی کی وفاقی وزارت خارجہ نے پیر تئیس اکتوبر کے روز ویب سائٹ شروع کیے جانے کے بعد جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ لوگ جھوٹ پر مبنی افواہوں اور غلط امیدوں کے باعث خود کو مشکلات میں نہ ڈالیں۔ ایسی ہی غلط افواہوں کے خاتمے کے لیے ہم اس ویب سائٹ پر غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی معلومات شائع کر رہے ہیں۔‘‘
جرمن وزارت خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانوں کے اسمگلر جھوٹی معلومات پھیلانے کے لیے زیادہ تر انٹرنیٹ کا ہی سہارا لیتے ہیں اسی لیے ’جرمنی کے بارے میں افواہیں‘ نامی اس منصوبے کے ذریعے انٹرنیٹ ہی کے ذریعے حقیقی صورتحال عام لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے۔
ملکی وزارت خارجہ نے سن 2015 سے پاکستان اور افغانستان کے علاوہ شمالی اور مغربی افریقہ میں بھی لوگوں کو غلط معلومات کی بنیاد پر غیر قانونی طور پر یورپ اور جرمنی کی جانب سفر کرنے سے روکنے کے لیے تشہیری مہم شروع کر رکھی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ٹی وی، ریڈیو، عوامی مقامات پر اشتہارات اور انٹرنیٹ کے ذریعے درست معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ جرمن حکومت کے مطابق نئی ویب سائٹ انہی کاوشوں کی ایک کڑی ہے۔
تارکین وطن کے بارے میں پانچ اہم حقائق
01:27
اس ویب سائٹ پر ’انسانوں کے اسمگلروں کے سات بڑے جھوٹ‘ کے نام سے بھی ایک مضمون موجود ہے جس میں انسانوں کے اسمگلروں کی جانب سے پھیلائی گئی افواہوں کے جوابات دیے گئے۔ چند ایک معلومات درج ذیل ہیں:
- ’جرمن کمپنیوں کو افرادی قوت درکار ہے اسی لیے وہ ہر روز پانچ ہزار تارکین وطن کو ملازمتیں دے رہے ہیں‘۔
یہ بھی غلط ہے، جرمن کمپنیوں میں بھی ایسا کوئی کوٹہ نہیں ہے۔ اگرچہ جرمنی میں افرادی قوت درکار ہے لیکن غیر قانونی طور پر جرمنی آنے والوں کو ملازمت نہیں ملتی اور نہ ہی جرمن حکومت مہاجرین کو روزگار فراہم کرتی ہے۔
- ’جرمنی ہر مہاجر کو گھر مہیا کرتا ہے‘۔
پناہ کے متلاشی افراد کو رہائش تو دی جاتی ہے لیکن اپنا گھر کسی کو نہیں دیا جاتا اور موجودہ حالات میں جرمنی میں رہائش کے لیے گھر ڈھونڈنا کافی دشوار ہو چکا ہے، خاص طور پر بڑے شہروں میں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن اپنی مرضی سے کسی بھی شہر میں رہائش اختیار نہیں کر سکتے۔
- ’جرمنی میں آٹھ لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دینے کا کوٹہ مختص کیا گیا ہے‘۔
یہ بالکل غلط ہے، جرمنی میں کسی بھی ملک کے لیے کوئی کوٹہ مختص نہیں ہے بلکہ جرمن حکام کو جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی ہر درخواست کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جاتا ہے جس کے بعد ہی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اس ویب سائٹ پر جرمنی آنے کے قانونی طریقوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘