جرمنی میں صدر نے انتخابی اصلاحاتی قانون پر دستخط کر دیے
9 جون 2023
جرمن صدر نے انتخابی اصلاحات کے متنازعہ ایک قانون پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس قانون کا مقصد وفاقی جرمن پارلیمان میں نشستوں کی تعداد کم کرنا یا اس کا سائز چھوٹا کرنا تھا۔
تصویر: Soeren Stache/dpa/picture alliance
اشتہار
وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائیر کی طرف سے جس متنازعہ قانون پر دستخط کیے گئے ہیں، اسے قانون سازوں نے پہلے ہی منظور کر لیا تھا۔
صدارتی دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اشٹائن مائیر کے اس قانون پر دستخط ایک رسمی بات تھی اور اس قانون پر نظر ثانی کے مطالبے کی ان کے پاس کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں تھی۔
جرمن قانون سازوں کی طرف سے پہلے ہی اس پر اتفاق کیا جا چُکا تھا۔ اب یہ قانون وفاقی رجسٹر میں اندراج کے ساتھ ہی نافذ العمل ہو چکا ہے۔ تاہم اس نئے قانون کا وفاقی آئینی عدالت یقینی طور پر جائزہ لے گی اور اسے چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔
جرمن الیکشن: پاکستانی نژاد خاتون سیاستدان بھی سرگرم
03:04
This browser does not support the video element.
دو جماعتوں کی مخالفت
جرمن صوبے باویریا کی قدامت پسند کرسچن سوشل یونین (CSU) کی حکومت اس قانون کو چیلنج کرنے کا پہلے ہی اس کا فیصلہ کر چُکی ہے۔ دوسری جانب بائیں بازو کی جماعت بھی نئے قانون سے ناخوش ہے اور اس قانون کو جرمن آئین کے غیر مطابق سمجھتی ہے۔
جرمنی کی موجودہ وفاقی پارلیمان 736 اراکین پر مشتمل ہے۔تصویر: Markus Schreiber/AP Photo/picture alliance
نئے قانون سے دراصل دونوں جماعتوں کو نمائندگی کھونے کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمن صدر اشٹائن مائیر کا تاہم کہنا تھا، ''یہ افسوسناک امر ہے کہ وفاقی جرمن پارلیمان میں نمائندگی کرنے والی جماعتیں انتخابی قانون میں اصلاحات کے لیے وسیع تر سیاسی اتفاق رائے تک پہنچ سکیں"۔
یہ قانون جرمنی کی وفاقی پارلیمان بُنڈس ٹاگ کے ایوان زیریں میں مارچ میں منظور کیا گیا تھا تاہم سی ایس یو اور لفٹ پارٹی کی حمایت کے بغیر جبکہ ایوان بالا یعنی بُنڈس راٹ میں اسے مئی کے ماہ میں پاس کیا گیا تھا۔
جرمن انتخابات: ممکنہ حکومتی اتحاد
عوامی رائے عامہ کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ جرمن انتخابات میں دو پارٹیوں کا اتحاد اکثریتی ووٹ حاصل نہیں کر سکے گا۔ ایسے میں تین سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد کی کئی آپشنز ممکن ہو سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Hörhager
جرمن سیاسی جماعتوں کے رنگ ان کی علامت
کرسچئن ڈیموکریٹک پارٹی اوراس کی روایتی اتحادی جماعت سی ایس یو کو سیاہ رنگ سے جانا جاتا ہے۔ سینٹر لیفٹ سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹ یا اس پی ڈی کو سرخ رنگ سے جانا جاتا ہے۔ آزاد مارکیٹ کی حامی جماعت فری ڈیموکریٹ یا ایف ڈی پی کو پیلے رنگ سے اور ملک کی گرین پارٹی کو ہرے رنگ سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/photocrew
سیاہ، سرخ، اور ہرا تحاد
سینٹر رائٹ تصور کی جانے والی سیاسی جماعت کرسچئن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اکثر ریاستی اور وفاقی سطح پر چھوٹی سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحاد قائم کرتی ہے۔ سی ڈی یو کے حلقوں میں اس اتحاد میں گرین پارٹی کو شامل کرنا کافی پرکشش ہے۔ لیکن گرین پارٹی اور ایف ڈی پی ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ سابقہ انتخابات کے بعد ایسا اتحاد بننے میں ناکام ہو گیا تھا۔
تصویر: Fotolia/aaastocks
سیاہ، پیلااور ہرا اتحاد
سی ڈی یو، ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی، ایسا اتحاد قائم ہونے کے امکانات پچاس فیصد سے زیادہ ہیں۔ ایسے اتحاد کو جرمن بزنس کمیونٹی پسند کرے گی۔ لیکن اگر ایس پی ڈی زیادہ ووٹ لیتی ہے تو وہ حکومتی اتحاد میں بھاری پوزیشن رکھے گی اور اپنی پالیسیوں کو نافذ کرانے کی کوشش کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
سیاہ، ہرا اور پیلا اتحاد
سی ڈی یو، ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی، ایسا اتحاد قائم ہونے کے امکانات پچاس فیصد سے زیادہ ہیں۔ ایسے اتحاد کو جرمن بزنس کمیونٹی پسند کرے گی۔ لیکن اگر ایس پی ڈی زیادہ ووٹ لیتی ہے تو وہ حکومتی اتحاد میں بھاری پوزیشن رکھے گی اور اپنی پالیسیوں کو نافذ کرانے کی کوشش کرے گی۔
تصویر: imago/blickwinkel/McPhoto/K. Steinkamp
سرخ، سرخ اور ہرا اتحاد
سوشل ڈیموکریٹس، گرین پارٹی اور لیفٹ پارٹی، ایک ایسا اتحاد، جو قدامت پسند جماعتیں تب پیش کرتی ہیں جب عوامی رائے ان کے خلاف ہو۔ اگر لیفٹ پارٹی پارلیمان میں پانچ فیصد سیٹیں جیتنے کی حد پار کر لیتی ہے تو ایسا اتحاد قائم ہونے کے امکانات پچاس فیصد ہیں۔ لیکن ایس پی ڈی اور لیفٹ پارٹی کے تاریخی تعلقات اچھے نہیں۔ لیفٹ پارٹی کے امور خارجہ کے حوالے سے انتہا پسندانہ سوچ اس اتحاد کے قیام کو مشکل بنا سکتی ہے۔
تصویر: Imago/C. Ohde
ہرا، پیلا اور گرین اتحاد
ملک کے اقتصادی نظام میں حکومت کی بہت کم دخل اندازی یا فری مارکیٹ کی حامی سیاسی جماعت ایف ڈی پی ماضی میں سوشل ڈیموکریٹس اور گرین پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کو مسترد کرتی رہی ہے۔ لیکن اس سال ایف ڈی پی اس ممکنہ حکومتی اتحاد کو رد نہیں کر رہی۔ جرمنی کی 'کنگ میکر' کہلائی جانے والی یہ سیاسی جماعت طاقت میں آنے کے لیے بے چین ہے۔ رینا گولڈ برگ، بج، اا
تصویر: picture alliance/dpa/J.Büttner
6 تصاویر1 | 6
موجودہ وفاقی پارلیمان
جرمنی کی موجودہ وفاقی پارلیمان 736 اراکین پر مشتمل ہے۔ یہ پارلیمان دنیا کی سب سے بڑی منتخب پارلیمان ہے۔ نئے انتخابی قانون کے تحت وفاقی پارلیمان کی نشستوں کو کم کر کے 630 کی حد بندی کر دی گئی ہے۔ ماضی میں انتخابات کے نتائج کے مطابق بُنڈس ٹاگ یا وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں کو بڑھایا جا سکتا تھا۔
برلن کے قلب میں واقع جرمن وفاقی پارلیمان تصویر: Abdulhamid Hosbas/AA/picture alliance
جرمن شہری پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ ایک براہ راست علاقائی امیدوار کے لیے اور ایک پارٹی کے لیے۔ پارٹی ووٹوں پر پارلیمان میں پارٹی کی طاقت کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر کوئی پارٹی پہلی ووٹنگ کے ذریعے زیادہ ووٹ حاصل کرتی ہے تو اسے دوسری ووٹنگ کی بنیاد پر اپنی کم سے کم مطلوبہ یعنی 598 سیٹوں میں اضافے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ اس طرح تمام پارٹیوں کو صحیح تناسب سے ووٹ کے حصول کا برابر حق ملتا ہے۔
انتخابات میں اصلاحات کے نئے قانون سے پارلیمان میں ''اوور ہنگ سیٹوں‘‘ سے جھٹکارا مل جائے گا۔ نئے قوانین کے تحت، ہر وہ پارٹی جو بنڈس ٹاگ میں داخل ہونا چاہتی ہے اُس کے لیے ملک بھر میں دوسرے ووٹوں کا کم از کم 5 فیصد حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ یہ امر سی ایس یو جیسی علاقائی پارٹی یا بائیں بازو کی پارٹی کے لیے مشکل ہے جو پورے ملک میں مضبوط نہیں ہے۔