آج جرمنی میں نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔ سابق وفاقی وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر صدر کے عہدے کے لیے ’فیورٹ‘ قرار دیے جا رہے ہیں۔ لیکن جرمنی میں صدر کے عہدے کی اہمیت کیا ہے اور اس صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
اشتہار
جرمنی میں صدر کا عہدہ علامتی حیثیت رکھتا ہے اور صدر کے پاس محدود اختیارات ہوتے ہیں تاہم ملک میں صدر کو ’اخلاقی اختیارات‘ کے حوالے سے اہم حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ جرمنی کے موجودہ صدر یوآخیم گاؤک ہیں۔ گاؤک کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے ہے اور وہ پادری ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی جرمنی میں جمہوریت کے حصول کے لیے سرگرم کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اب ان کی عمر 77 برس ہو چکی ہے اور انہوں نے اپنی عمر کے باعث اگلی مدت کے لیے صدارتی عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی۔
جرمنی میں صدر کے عہدے کا انتخاب 1260 منتخب اراکین کرتے ہیں۔ ان میں سے 630 اراکین کا تعلق ملک کے وفاقی ایوان زیریں سے ہوتا ہے جب کہ باقی اراکین کو یکساں طور پر سولہ وفاقی جرمن ریاستوں سے منتخب کیا جاتا ہے۔
نئے صدر کے انتخابات میں فرانک والٹر اشٹائن مائر کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ اشٹائن مائر گزشتہ مہینے تک جرمنی کے وفاقی وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے۔ اشٹائن مائر کا تعلق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے لیکن ان کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور ان کی اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے مجموعی اراکین کی تعداد 923 ہے جس کی وجہ سے اشٹائن مائر کا صدر بننا یقینی دکھائی دیتا ہے۔
رواں برس ستمبر کے مہینے میں جرمنی میں عام انتخابات کا انعقاد بھی ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں اتحادی جماعتوں کے لیے متفقہ طور پر ملکی صدر منتخب کرنا ایک امتحان بھی ہے۔ عام انتخابات میں چانسلر میرکل چوتھی مرتبہ چانسلر کا عہدہ حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ تمام اتحادی جماعتیں چاہتی ہیں کہ آئندہ انتخابات میں ان کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مستحکم ہو تاکہ اتحادی حکومت بنانے سے بچا جا سکے۔
اشٹائن مائر کو جرمن عوام کا پسندیدہ سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔ اکسٹھ سالہ صدارتی امیدوار چانسلر میرکل کے دور اقتدار میں دو مرتبہ وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ عام طور پر انہیں انتہائی مدبر اور صابر ڈپلومیٹ کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
آج ہونے والے صدارتی انتخابات میں ان کے مد مقابل چار امیدوار ہیں۔ بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت نے کرسٹوف بُٹرویگے کو نامزد کر رکھا ہے جب کہ انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے نائب صدر البریخت گلازر بھی جرمن صدر بننے کے خواہش مند ہیں۔
ایک مدبر اور قابل احترام شخصیت
جرمنی کے سابق صدر رچرڈ فان وائٹسیکر 31 جنوری کو انتقال کر گئے ہیں۔ انہی کے دورِ صدارت میں منقسم جرمنی کا اتحاد مکمل ہوا تھا۔ وہ سن 1984 سے سن 1994 تک منصبِ صدارت پر فائز رہے۔
تصویر: Bundesregierung/Richard Schulze-Vorberg
ایک غیر معمولی سیاستدان
بطور سیاستدان، اُن کا تعلق قدامت پسند پارٹی سی ڈی یُو سے تھا۔ موجودہ چانسلر انگیلا میرکل بھی اِسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتی ہیں۔ وائٹسیکر کو جرمنی میں اخلاقی اتھارٹی کا نام دیا گیا تھا۔
تصویر: Bundesregierung/Richard Schulze-Vorberg
والد کا دفاع
رچرڈ فان وائٹسیکر کے والد ارنسٹ فان وائٹسیکر نازی دور میں جرمن وزارت خارجہ کے ساتھ منسلک تھے۔ جنگ کے بعد ارنسٹ فان وائٹسیکر کو گرفتار کر کے جنگی جرائم کی عدالت میں بھی پیش کیا گیا۔ عدالت میں استغاثہ نے اُن پر جرم ثابت کر دیا اور اُن کو سات برس قید کی سزا سنائی۔ وائٹسیکر نے بطور وکیل اپنے والد کا دفاع بھی کیا۔
تصویر: cc
ابتدائی سیاسی زندگی
انہوں نے ماریانے وائٹسیکر سے شادی کی جن سے ان کے چار بچے ہوئے۔ 1953ء میں قانون کے شعبے میں تعلیم کے بعد رچرڈ فان وائٹسیکر نے سن 1954 میں قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔
تصویر: picture alliance / dpa
ایک قابل احترام میئر
سن 1981 سے سن 1984 تک وہ مغربی برلن کے میئر بھی رہے تھے۔ وائٹسیکر 1982ء میں جب امریکی صدر رونالڈ ریگن نے جرمنی کا دورہ کیا تو برلن میں ان کے میزبان چانسلر ہیلمٹ شمٹ کے ساتھ وائٹسیکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں کئی اصلاحات بھی متعارف کرائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تقسیم کے خاتمے کی کوشش
15 ستمبر، 1953ء کو وائٹسیکر سابق مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ افیرش ہونیکر سے ملاقات کرنے مشرقی برلن گئے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی اور مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کی راہ میں ایک اہم پیشرفت۔
تصویر: picture alliance/dpa
ایک مدبر سیاستدان
یکم جولائی 1984ء کو وائٹسیکر لوئیس رینزر کو شکست دے کر جرمنی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ وہ سن 1984 سے سن 1994 تک منصبِ صدارت پر فائز رہے۔
تصویر: imago stock&people
الفاظ جو زندہ رہے
’’مئی آٹھ 1945ء آزادی کا دن تھا‘‘۔ رچرڈ فان وائٹسیکر نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے حوالے سے یہ الفاظ 1985ء میں ایک تقریب کے دوران کہے۔ یہ کہنے پر انہیں تعریف اور تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کے یہ الفاظ تاریخ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محتاط رویہ
انہی کے دورِ صدارت میں منقسم جرمنی کا اتحاد مکمل ہوا تھا۔ ہیلمٹ کوہل ہمیشہ کے لیے ’چانسلر آف ری یونیٹی‘ یعنی دوبارہ اتحاد کے چانسلر کہلائے کہلائیں گئے۔ وائٹسیکر کے خیال میں نے ان دو جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے لیے متعدد رہنماؤں سمیت عوام نے بھی اہم کردار کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ کے لیے مہم
اپنے دور صدارت کے بعد بھی رچرڈ فان وائٹسیکر سیاسی حوالے سے فعال رہے۔ 2001ء میں یورو بطور مشترکہ کرنسی اپنائے جانے سے قبل وائٹسیکر نے یورپی کرنسی اختیار کرنے کے حوالے سے بھرپور مہم چلائی جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ ایک متحد یورپ کے حامی تھے۔