جرمنی: صوبائی الیکشن میں حکومتی پارٹی کی دائیں بازو سے ٹکر
22 ستمبر 2024جرمنی کی مشرقی ریاست برانڈنبرگ، جہاں ملکی دارالحکومت برلن کے قریب واقع ہے، میں دو اعشاریہ ایک ملین رجسٹرڈ ووٹرز نے آج اتوار کے روز نئے صوبائی پارلیمان کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔
رائے عامہ کے تازہ ترین نتائج کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) اور جرمن چانسلر اولاف شولس کی حکومتی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایس پی ڈی سن 1990 میں سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان دوبارہ اتحاد کے بعد سے اس صوبے میں حکومت میں رہی ہے۔ یہ جماعت اس مرتبہ بھی صوبائی پارلیمان میں اقتدار پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی امید کر رہی ہے۔
چانسلر اولاف شولس برانڈنبرگ کے دارالحکومت پوٹسڈام میں رہتے ہیں اور جرمن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چانسلر شولس کا سیاسی مستقبل برانڈنبرگ میں اتوار کو ہونے والی ووٹنگ کے نتائج سے طے ہو گا۔ انہی کی جماعت کے وزیر اعلیٰ ڈیتمار ووئڈکے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اے ایف ڈی کی جیت کی صورت میں وہ مستعفی ہوجائیں گے۔
عوامیت پسند جماعتوں کی بڑھتی مقبولیت
انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی عوام میں مقبولیت میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں جرمنی کی دو دیگر مشرقی ریاستوں تھیورنگیا اور سیکسنی میں اِس جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ لہٰذا برانڈنبرگ کے صوبائی انتخابات میں بھی توجہ مہاجرت، داخلی سلامتی اور امن و امان جیسے مسائل پر مرکوز رہی ہے۔
اس دوران بائیں بازو کی رہنما سارا واگنکنیخٹ کی طرف سے قائم کی گئی ایک نئی پارٹی (بی ایس ڈبلیو) کو بھی جرمنی کی مشرقی ریاستوں میں نمایاں عوامی حمایت مل رہی ہے۔ وہ کییف کو ہتھیاروں کی ترسیل ختم کرنا چاہتی ہیں، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب یوکرین روس کے حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وفاقی حکومت کے لیے ممکنہ دھچکا
جرمنی میں مرکزی دھارے کی سیاست میں نمایاں تبدیلی، جیسے کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت کی بڑھتی حمایت، پچھلی دہائی کے دوران ملک میں بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے ردعمل اور حالیہ کئی شدت پسند حملوں کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔ جرمنی کی معیشت، جو کبھی پاور ہاؤس تھی، قدراﹰ کمزور ہوتی جا رہی ہے، جس سے عام طور پر عوام میں بے چینی کا احساس بڑھ رہا ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق برانڈنبرگ میں اگر اے ایف ڈی ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے، پھر بھی اس کے حکومت قائم کرنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ دیگر تمام سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر چکی ہیں۔ تاہم سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اے ایف ڈی کی ایک اور کامیابی وفاقی سطح پر مخلوط حکومت کی سب سے بڑی جماعت ایس پی ڈی کے لیے آئندہ برس ستمبر میں ہونے والی عام انتخابات سے قبل ایک بڑا دھچکا ثابت ہوسکتی ہے۔
ع آ / م ا (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)