1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی تعداد میں کمی

18 فروری 2017

2016ء کے دوران جرمنی میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں 2015ء کے مقابلے بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔

Serbien Ungarn Grenze Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Mohai

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی ایک رپورٹ میں ملک کی وفاقی پولیس کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ جرمنی ميں غير قانونی انداز ميں داخل ہونے والے تارکين وطن کی تعداد ميں گزشتہ برس يعنی سن 2016 ميں خاطر خواہ کمی نوٹ کی گئی۔

وفاقی جرمن پوليس کے مطابق 2016ء کے دوران غير قانونی طور جرمنی میں داخلے کے کُل 167,500 کيسز ريکارڈ کيے گئے جبکہ اس سے گزشتہ برس يعنی سن 2015 ميں يہ تعداد 217,237 تھی۔ قبل ازيں يورپ ميں مہاجرين کے بحران کے باقاعدہ آغاز سے قبل سن 2014 ميں جرمنی ميں غير قانونی داخلے کے 57,095 کيسز ريکارڈ کيے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے:

جرمنی: پناہ کے سوا چار لاکھ سے زائد کیس نمٹانے کا امکان

پناہ کے متلاشیوں کے لیے جرمن حکومت کے مزید سخت فیصلے

پوسٹڈام میں جرمنی کی وفاقی پولیس کی خاتون ترجمان کی طرف سے یہ اعداد وشمار ایک مقامی اخبار ’’ہائلبرونر اِشٹمے‘‘ کو فراہم کیے گئے جو آج ہفتے کے روز شائع ہوئے ہیں۔

تصویر: picture alliance/AA/L. Barth

2015ء کے دوران قریب دس لاکھ مہاجرین اور تارکین وطن پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی جرمنی آمد کی ایک وجہ چانسلر انگیلا میرکل کی طرف سے مہاجرین کو کھلے دل کے ساتھ ملک میں پناہ دینے کا فیصلہ تھا۔ تاہم اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کے بعد سے پیدا ہونے والے مسائل اور بعض دہشت گردانہ واقعات کے باعث انہیں ملک میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اسی دوران جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایسے افراد کو اُن کے وطن واپس بھیجنے کی رفتار میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

جرمنی: سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزاروں کی جلد ملک بدری

02:20

This browser does not support the video element.

جرمن حکومت کی طرف سے ایسے افراد کو مالی مدد فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی گئی ہے جو رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہوں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں