جرمنی میں فائیو جی نیٹ ورک کے لائسنس 6.5 ارب یورو میں نیلام
13 جون 2019
جرمنی میں فائیو جی انٹرنیٹ نیٹ ورک کے لائسنسوں کی نیلامی سے وفاقی حکومت کو ساڑھے چھ ارب یورو کی آمدنی ہوئی۔ نیلامی کا یہ قانونی عمل قریب تین ماہ تک مختلف مراحل میں جاری رہا، جس میں سینکڑوں مرتبہ بولیاں لگائی گئیں۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق برلن میں وفاقی حکومت کو ان لائسنسوں کی نیلامی کے نتیجے میں ہونی والے آمدنی توقعات سے کہیں زیادہ رہی۔ اس نیلامی میں سب سے زیادہ اور کامیاب بولیاں لگانے والے اداروں کو اب ملک میں عام گھروں کو انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنا ہو گی اور آپس میں اس نیٹ ورک کو ایک دوسرے کے ساتھ مالی معاوضے کے بدلے شیئر کرتے ہوئے مل جل کر استعمال کرنا ہو گا۔
اس بارے میں جرمنی کی فیڈرل نیٹ ورک ایجنسی نے بتایا کہ اس نیلامی کے دوران مختلف اداروں کی طرف سے کل 497 مرتبہ بولیاں لگائی گئیں، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ یہ نیلامی فائیو جی نیٹ ورک کی فریکوئنسیوں کے ایک وسیع سپیکٹرم سے متعلق تھی، جو ڈیٹا کی بہت تیز رفتار ٹرانسفر کو یقینی بنائے گا اور یہ فریکوئنسیاں دو گیگا ہرٹس سے لے کر 3.6 گیگا ہرٹس تک کے درمیان ہوں گی۔
یہ انٹرنیٹ سروس اتنی تیز ہو گی کہ مختلف صنعتی پیداواری اداروں کی کارکردگی کو اس نیٹ ورک سے جوڑا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ جرمنی کے بہت سے شہر بھی اس کے ذریعے آپس میں مربوط ہوں گے اور یہی نیٹ ورک بغیر ڈرائیوروں کے چلنے والی خود کار گاڑیاں تک بھی استعمال کر سکیں گی۔
شروع میں حکومت کا اندازہ تھا کہ اس کو اس نیلامی سے ہونے والی آمدنی تین اور پانچ ارب یورو کے درمیان تک ہو گی۔ لیکن جب یہ عمل مکمل ہوا تو کل 41 مختلف اقسام کی فریکوئنسیوں کے لیے لگائی گئی بولیوں کی مجموعی مالیت 6.5 ارب یورو یا 7.3 ارب امریکی ڈالر کے برابر تک پہنچ چکی تھی۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
اہم بات یہ بھی ہے کہ اس نیلامی کے دوران بولی لگانے والے کسی بھی ادارے کے لیے لازمی تھا کہ وہ اس سال مارچ کے وسط میں شروع ہونے والے اس عمل کے دوران اگر کسی دوسرے ادارے کے مقابلے میں زیادہ بڑی مالی پیشکش کرنا چاہے، تو اسے پچھلی بولی سے کم از کم بھی دو ملین یورو زیادہ کے برابر پیشکش کرنا تھی۔
اس نیلامی میں سب سے بڑی بولیاں جرمنی کے سب سے بڑے ٹیلیکوم ادارے ڈوئچے ٹیلیکوم، ووڈافون اور ٹیلیفونیکا جرمنی کی طرف سے لگائی گئیں۔ اب ان اداروں کو سن 2022ء تک جرمنی کے 98 فیصد گھروں کو اس انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ نیٹ ورک سے جوڑنا ہو گا۔
عالمی سطح پر جرمنی کی پوزیشن
جرمنی میں انٹرنیٹ ڈاؤن لوڈ کی اوسط رفتار کے حوالے سے اس ملک کی عالمی درجہ بندی میں پوزیشن 46 ویں ہے۔ مزید یہ کہ اب حکومت کو اس نیلامی سے جو آمدنی ہوئی ہے، وہ اپنی نوعیت کا کوئی نیا ریکارڈ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس سے قبل 2015ء میں فور جی نیٹ ورک کی جو نیلامی ہوئی تھی، اس سے برلن حکومت کو 5.1 ارب یورو کی آمدن ہوئی تھی۔
لیکن سب سے بڑا مالیاتی ریکارڈ سن 2000ء میں بنا تھا، جب ریاست نے ملک میں تھری جی نیٹ ورک کے لیے لائسنس فروخت کیے تھے۔ تب حکومت کو 50 ارب یورو سے زائد کی آمدنی ہوئی تھی اور یہ رقوم اتنی زیادہ تھیں کہ بہت سے ٹیلیکوم ادارے تو اس نیلامی کو بیچ ہی میں چھوڑ کر ٹیلیکوم مارکیٹ سے بھی غائب ہی ہو گئے تھے۔
م م / ع ت / اے ایف پی، ڈی پی اے
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔