1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں قبل از وقت انتخابات تیئیس فروری کو کرانے پر اتفاق

12 نومبر 2024

موجودہ چانسلر اولاف شولس سولہ دسمبر کو پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے، جس سے فروری کے انتخابات کی راہ ہموار ہو گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ انتخابات سے ملک میں جاری سیاسی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

جرمن چانسلر اولاف شولس
جرمن چانسلر اولاف شولس تصویر: Denes Erdos/AP Photo/picture alliance

سیاسی بحران کے شکار جرمنی میں اہم ترین سیاسی جماعتوں نے آئندہ سال 23 فروری کوملک میں قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کر لیا ہے۔ ان انتخابات کا مقصد گزشتہ ہفتے چانسلر اولاف شولس کے تین جماعتی حکومتی اتحاد کی ناکامی کے بعد ایک مستحکم حکومت قائم کرنا  ہے۔

برلن میں مخلوط حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ حکمران اتحاد میں شامل دو مرکزی جماعتوں نے انتخابات کے حوالے سے ابتدائی ٹائم ٹیبل پر اتفاق کر لیا، جس کے تحت اولاف شولس سولہ دسمبر کو وفاقی پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے، جس سے فروری کے انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

سابق جرمن وزیر خزانہ لنڈنر (درمیان میں) اور حکومتی اتحادی جماعت ایف ڈی کے رہنما تصویر: Christoph Soeder/dpa/picture alliance

چانسلر شولس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس ڈی پی)، جو اب گرینز پارٹی کے ساتھ مل کر اقلیتی حکومت کا حصہ ہے، نے قدامت پسند اپوزیشن جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور اس کی اتحادی صوبے باویریا کی سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے ساتھ مل کرمفاہمت کے تحت نئے عام انتخابات کی تاریخ طے کی۔

یہ معاہدہ ایسے وقت میں تیزی سے سیاسی استحکام بحال کرنے کی ایک کوشش ہے، جب یورپ کی سب سے بڑی معیشت لگاتار دوسرے سال سکڑنے والی ہے اور یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جنگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جغرافیائی اتار چڑھاؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ان انتخابات کے لیے طے کردہ تاریخ کا ایک مطلب یہ بھی ہو گا کہ جرمنی میں ایک ایسے چانسلر کی مفلوج حکومت ہوگی، جو 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور امریکی صدر حلف اٹھانے کے موقع پر دراصل اپنی انتخابی مہم میں پھنس چکا ہو  گا۔

سیاسی طور پر نامساعد حالات کا شکار شولس ناقص پول ریٹنگ کے باوجود دوبارہ انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں  نے ابتدائی طور پر مارچ کے آخر میں انتخابات کی تجویز دی تھی لیکن اس عمل کو تیز کرنے کے لیے دیگر تمام جماعتوں کے شدید دباؤ میں آ گئے۔

سی ڈی یو رائے عامہ کے جائزوں میں سرفہرست ہے اور اس کے رہنما فریڈرش میرس نے جلد از جلد الیکشن کرانے پر زور دیا تھا۔ ایک ایسا مطالبہ جس کی دو تہائی ووٹروں نے بھی حمایت کی تھی۔ میرس نے منگل کے روز کہا، ''ہمارے پاس جرمنی میں نئی ​​حکومت منتخب کرنے کے لیے لامحدود وقت نہیں ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کی قیادت کون کرتا ہے، کیونکہ ہمارے ارد گرد کی دنیا انتظار نہیں کر رہی۔‘‘

میرس کا مزید کہنا تھا، ''ایسا نہیں ہے کہ ہر کوئی اپنی سانسیں روکے ہوئے ہے اور جرمنی کو سحر میں دیکھ رہا ہے، جیسا کہ یورپ، ایشیا اور امریکہ میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ''دنیا ایسے جرمنی کی توقع رکھتی ہے، جو کوئی بھی ایکشن لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔‘‘

جرمن حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے مابین مختلف امور پر ہیلے دن سے ہی اختلافات پائے جاتے تھےتصویر: Christoph Soeder/dpa/picture alliance

23 فروری کی تاریخ سیاست دانوں کو سخت سرد موسم اور سردیوں کے اندھیرے میں اپنی مہم چلانے پر مجبور کر دے گی، جبکہ ووٹر عام طور پر موسم گرما کی مہم کے مقابلے میں آؤٹ ڈور ایونٹس میں شرکت کے لیے کم پرجوش ہوں گے۔ منگل کو ہونے والے معاہدے کے تحت شولس وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں میں کرسمس کی تعطیلات سے ایک ہفتہ قبل اپنے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے، جس میں ان کے بظاہر ہار جانے کا امکان ہے۔

جرمن  صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر کے پاس بطور سربراہ مملکت پارلیمان کو تحلیل کرنے کے لیے 21 دن کا وقت ہوگا اور اگلے 60 دنوں کے اندر اندر انتخابات کرانا ہوں گے۔ سی ڈی یو کے جنرل سیکرٹری کارسٹن لِنےمان نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس فیصلے سے جلد ہی استحکام کا احساس بحال ہو جائے گا۔ انہوں نے عوامی نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کو بتایا، ''لوگ بہت پریشان ہیں اور نہیں جانتے کہ ملک کہاں جا رہا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب انتخابی ٹائم ٹیبل کی مزید وضاحت ہو گئی، تو''معاملات پرسکون ہو جائیں گے اور ہم انتخابی مہم میں جا سکتے ہیں۔‘‘ اولاف شولس  نے 2021 کے آخر میں بائیں طرف جھکاؤ رکھنے والے گرینز اور لبرل اور پرو بزنس فری ڈیموکریٹس (FDP) کے ساتھ مل کر سہ فریقی اتحاد قائم کر کے سابقہ چانسلر اور CDU کی رہنما انگیلا میرکل  کے بعد وفاقی چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔

لیکن اقتصادی اور مالیاتی پالیسی پر بڑھتے ہوئے اختلافات گزشتہ ہفتے اس وقت سامنے آئے جب شولس نے FDP کے سربراہ اور باغی وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر ​​کو برطرف کر دیا۔ اس فیصلے نے حکومتی اتحاد میں شامل  ایف ڈی پی جیسی چھوٹی پارٹی کو حکومت چھوڑنے پر آمادہ کر دیا تھا۔

موجودہ جرمن چانسلر اولاف شولس ایک ایسے موقع پر اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہوں گے جب منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں داخل ہو رہے ہوں گےتصویر: Patrick Semansky/AP Photo/picture alliance

اس کے بعد سے شولس کی جماعت ایس پی ڈی اور گرین پارٹی نے اقلیتی حکومت کے طور پر اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے، جسے کسی بھی قانون کو منظور کرانے کے لیے اب اپوزیشن کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔ اولاف شولس کی زیر قیادت قائم اتحاد نے پہلی بار وفاقی سطح پر ایسی ایک سہ فریقی مخلوط حکومت قائم کی تھی  اور جرمنی کی تیزی سے بکھرتی ہوئی سیاسی پارٹیوں کے منظر نامے کے پیش نظر، یہ شاید آخری مخلوط حکومت بھی نہ ہو۔

امیگریشن کے خدشات نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے عروج کو جنم دیا ہے۔ اب تک اسے عوامی جائزوں میں 20 فیصد کے قریب حمایت حاصل ہے، لیکن دیگر جماعتوں نے اس کی بہت ہی سخت سوچ اور پالیسیوں کی وجہ سے ایک ممکنہ اتحادی پارٹنر کے طور پر اس سے دور ہی رہنے کا عہد کیا ہے۔

تازہ ترین عوامی جائزوں میں دائیں بازو کی ہم خیال کرسچن قدامت پسند جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو کو 32 فیصد تک عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ تاہم پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے لیے قدامت پسندوں کو بھی ممکنہ طور پر مستقبل میں ایس پی ڈی کی حمایت کی ضرورت ہوگی، جو اس وقت ایک نام نہاد عظیم اتحاد میں 15.5 فیصد پر پولنگ کر رہی ہے، اس کے علاوہ ایک تیسری پارٹی بھی۔

 موجودہ جائزوں کے مطابق چانسلر شپ کی دعویدار پانچ فیصد حمایت  والی جماعت ایف ڈی پی یا  ممکنہ طور پر گرینز، ہیں، جنہیں فیصد حمایت حاصل ہے۔ کرسٹیان لِنڈنرکا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ وزیر خزانہ بننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے منگل کے روز کہا کہ سی ڈی یو کے میرس ''تقریباً یقینی طور پر جرمنی کے اگلے چانسلر ہوں گے اور سوال صرف یہ ہے: چانسلر میرس کس کے ساتھ مل کر حکومت کریں گے؟‘‘

ش ر⁄ م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی)

04:07

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں