1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی میں قبل از وقت قومی الیکشن خارج از مکان، وفاقی حکومت

10 جون 2024

ستائیس ممالک میں چار دنوں تک جاری رہ کر گزشتہ ویک اینڈ پر مکمل ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات کے جرمنی میں نتائج کی روشنی میں ملک میں قبل از وقت عام انتخابات نہیں کرائے جائیں گے۔ یہ بات جرمن حکومتی ترجمان نے بتائی۔

جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل تینوں سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما: دائیں سے بائیں، ایف ڈی پی کے کرسٹیان لِنڈنر، ایس پی ڈی کے اولاف شولس اور گرین پارٹی کے روبرٹ ہابیک
جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل تینوں سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما: دائیں سے بائیں، ایف ڈی پی کے کرسٹیان لِنڈنر، ایس پی ڈی کے اولاف شولس اور گرین پارٹی کے روبرٹ ہابیکتصویر: TOBIAS SCHWARZ/AFP/Getty Images

یورپی یونینن کے رکن 27 ممالک میں یورپی پارلیمان کے نئے ارکان کے انتخاب کا عمل چھ جون سے شروع ہو کر گزشتہ روز نو جون کو مکمل ہوا تھا۔ ان انتخابات میں پوری یورپی یونین میں مجموعی طور پر برتری تو مرکز سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی قدامت پسند جماعتوں کے پارلیمانی حزب کو ہی ملی، تاہم کئی ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعتوں کو حاصل تائید میں اضافہ بھی دیکھا گیا۔

جرمن حکومتی جماعتوں کی تائید میں کمی

فرانس میں مارین لے پین کی جماعت کو ملنے والی زبردست کامیابی کے بعد صدر ماکروں نے فوری طور پر ملک میں نئے عام الیکشن کرانے کا اعلان کرتے ہوئے اتوار کی رات ہی پیرس میں قومی پارلیمان بھی تحلیل کر دی تھی۔

اسی طرح جرمنی میں تارکین وطن کی آمد اور اسلام کی مخالفت کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کو حاصل تائید میں بھی اضافہ ہوا اور وہ مجموعی تائید کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہی۔

جرمنی میں حالیہ یورپی پارلیمانی الیکشن میں ووٹروں کی شرکت کا تناسب معمول سے بہت زیادہ رہاتصویر: Annegret Hilse/REUTERS

اس تناظر میں چانسلر شولس کی قیادت میں تین جماعتی مخلوط حکومت میں شامل پارٹیوں کو ملنے والی کم حمایت کے پیش نظر اپوزیشن کی قدامت پسند یونین جماعتوں کی طرف سے بلاتاخیر یہ مطالبہ کر دیا گیا کہ جرمنی میں بھی یورپی انتخابی نتائج کی روشنی میں فرانس کی طرح قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا جائے۔

جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں چانسلر اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی)، ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) شامل ہیں۔

شولس حکومت کا موقف

جرمن اپوزیشن کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور جنوبی صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال قدامت پسند جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کی طرف سے نئے قومی انتخابات کے مطالبے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ یورپی پارلیمانی الیکشن میں تینوں حکومتی جماعتوں کو حاصل عوامی تائید میں کمی ہوئی ہے۔ اس لیے عوامی خواہشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں فوری نئے عام الیکشن کا اعلان کیا جائے۔

انتہائی دائیں بازو کی جرمن پارٹی اے ایف ڈی کو یورپی پارلیمانی الیکشن میں کافی زیادہ حمایت ملیتصویر: Sebastian Kahnert/dpa/picture alliance

اس مطالبے کے جواب میں برلن میں آج پیر 10 جون کو وفاقی حکومت کے ترجمان اشٹیفن ہیبے شٹرائٹ نے صحافیوں کو بتایا، ''ملک میں معمول کے مطابق نئے قومی انتخابات اگلے برس موسم خزاں میں ہونا ہیں اور حکومت اس ٹائم ٹیبل کو یونہی رکھنا چاہتی ہے۔‘‘

وفاقی حکومتی ترجمان نے بتایا، ''مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کی طرف سے اس امکان پر ایک لمحے کے لیے بھی غور نہیں کیا گیا کہ جرمنی میں اچانک نئے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘

عام الیکشن اگلے برس موسم خزاں میں ہی ہوں گے

جرمنی میں کل اتوار کے روز ہونے والے یورپی پارلیمانی الیکشن میں چانسلر شولس کی مخلوط حکومت میں شامل تینوں جماعتوں کو مجموعی طور پر ایک تہائی سے بھی کم ووٹ ملے تھے۔ خود چانسلر شولس کی اپنی جماعت ایس پی ڈی کو تو اس قومی سطح کے الیکشن میں کافی برے نتائج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جرمنی میں اے ایف ڈی کی سیاست کے خلاف عوامی مظاہرے بھی عام سی بات ہیںتصویر: Kirill Kudryavtsev/AFP/Getty Images

اسی لیے جب شولس حکومت کے مستقبل کے بارے میں اپوزیشن کی طرف سے مختلف باتیں کہی جانے لگیں، تو ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر دیا گیا کہ جرمنی بھی فرانس کی طرح فوراﹰ نئے قومی الیکشن کے انعقاد کا اعلان کر دے۔

اس سیاسی مطالبے کو رد کرتے ہوئے اور موجودہ وفاقی حکومت کے موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومتی ترجمان ہیبے شٹرائٹ نے برلن میں کہا، ''چانسلر شولس کی حکومت ایک چار سالہ سیاسی منصوبہ ہے، جس کا فیصلہ جرمن عوام نے کیا تھا۔ اگلے قومی انتخابات چار سالہ مدت کے بعد ہی ہوں گے۔ تب عوام کو نئے سرے سے اپنی رائے دینا ہو گی اور جرمنی کی وفاقی جمہوری سیاست کی ہیئت بھی اسی کی متقاضی ہے۔‘‘

م م / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں