جرمنی میں لاکھوں تارکین وطن دوہری شہریت کے لیے پُر امید
30 اپریل 2023
جرمن پارلیمان میں زیر غور اصلاحات اب دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیے دوہری شہریت کے دروازے کھول سکتی ہیں۔ اگر ان اصلاحات کی منظوری دی گئی تو اس سے مستفید ہونے والوں میں سب سے بڑی تعداد جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی ہوگی۔
اشتہار
شینر ثروت کا تعلق ترکی سے ہے لیکن وہ چھ دہائیوں سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر رکھی ہے اور مقامی زبان روانی سے بولتے ہیں۔ اس کے باوجود اس اسی سالہ بزرگ کے پاس جرمن شہریت نہیں کیونکہ کسی دوسرے ملک کی شہریت لینےکا مطلب یہ ہےکہ انہیں اپنی ترک شہریت ترک کرنا پڑے گی۔
لیکن یہ صورتحال اب تبدیل ہو سکتی ہے۔ جرمن پارلیمان میں جرمن قومیت سے متعلق زیر غور اصلاحات اب دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیےدوہری شہریت کے دروازے کھول سکتی ہیں۔ ان لوگوں میں ایک بڑی تعداد جرمنی میں آباد ترک باشندوں کی بھی ہے۔ ثروت نے فرینکفرٹ میں اپنے گھر سے اے ایف پی کو بتایا،''میں اکثر جرمن شہریت حاصل کرنے کے بارے میں سوچتا تھا لیکن پھر میں ہمیشہ ایسا کرنے سے رکا رہاکیونکہ اس کے لیے مجھے اپنی ترک شہریت ترک کرنا پڑتی اورمیں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘‘
جرمنی میں مقیم ترک کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ایک غیر سرکاری گروپ ٹی جی ڈی کے بانی ثروت کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں ''غصے میں‘‘ ہیں کہ تبدیلی اتنی سست رفتار ہے لیکن وہ پُر امید ہیں کہ یہ آخر کار ہو سکتا ہے،''یہ ایک اچھا قدم ہو گا نہ صرف ہمارے لیے بلکہ خود جرمنی کے لیے‘‘۔ جرمنی کی موجودہ اتحادی حکومت شہریت سے متعلق ان منصوبوں پر بات چیت میں مصروف ہے اور ایسے مثبت اشارے مل رہے ہیں کہ اس حوالے سے جلد ہی معاہدہ ہو سکتا ہے۔
ثروت 1959ء میں استنبول سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے فرینکفرٹ پہنچے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے، جب ترکی اور جرمنی کے مابین ایک معاہدےکے نتیجے میں بڑی تعداد میں ترکوں کے لیے جرمنی میں کام کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہا تھا اور اسے تباہ شدہ شہروں کی تعمیر نو، شپ یارڈز، اسٹیل ورکس اور کار سازی کے پلانٹس میں کام کرنے کے لیے افرادی قوت کی اشد ضرورت تھی۔
جرمنی نے ترکی کے ساتھ ساتھ اٹلی، تیونس اور یونان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کیے تاکہ نام نہاد ''مہمان کارکنان‘‘کو عارضی بنیادوں پر کام کے لیے اپنے ہاں لایا جا سکے۔ اس معاہدے کے تحت تقریباً 870,000 ترک باشندے جرمنی آئے اور یہ سلسلہ 1973 ء تک جاری رہا۔ ان میں سے سینکڑوں ہزاروں یہیں قیام کر تے ہوئے یورپ کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں بڑی سماجی اور آبادیاتی تبدیلیوں کے آغاز کا سبب بنے۔
ثروت کے مطابق نئے آنے والوں کو ابتدائی دنوں میں بہت کم حقوق حاصل تھے اور انہیں ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم ان کے بقول برسوں کے دوران حالات میں بہتری آئی اور بہت سے لوگ اپنے خاندان جرمنی لے آئے لیکن ان کا جرمن شہریت کے حصول کا راستہ مشکل رہا۔ انہیں ایک اچھے معیار کے ساتھ جرمن زبان سیکھنا تھی اور یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ معاشرے میں ضم ہو چکے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ انہیں اپنی ترک قومیت ترک کرنا تھا۔
سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچئین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے قدامت پسند ارکان کئی دہائیوں سے شہریت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمزور قوانین معاشرے میں نئے آنے والوں کے انضمام کا باعث نہیں بنیں گے۔تاہم 2021 ء میں برسر اقتدار آنے والی جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت نے ایک نیا ''جدید شہریت کا قانون‘‘ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔
اشتہار
زیرغوراصلاحات
اس سلسلے میں زیر غور مسودہ بل زیادہ تر غیر ملکیوں کے لیے دوہری شہریت اختیار کرنے کا راستہ کھول دے گا، جو عام طور پر اس وقت صرف یورپی یونین اور سوئس شہریوں تک محدود ہے۔ منصوبہ بند اصلاحات میں نیچرلائزیشن کے لیے درکار رہائش کے سالوں کی تعداد کو فی الحال آٹھ سے کم کر کے پانچ کرنا بھی شامل ہے اور یہاں تک کہ کچھ معاملات میں یہ عرصہ تین سال تک محدود کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ''گیسٹ ورکر‘‘ کی نسل سے تعلق رکھنے والوں کے جرمن معاشرے میں انضمام کے لیے زبان کی ضروریات کو بھی آسان کیا جائے گا۔
ٹی جی ڈی کے مطابق اس قانون سازی کا جرمنی میں مقیم 10 لاکھ افراد پر مشتمل ترک کمیونٹی پر اثر ممکنہ طور پر بہت بڑا ہو سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کی تقریباً 84 ملین آبادی میں ترک پس منظر والے تقریباً 2.8 ملین افراد شامل ہیں۔ منصوبہ بند شہریت کی بحالی کا تذکرہ مخلوط حکومت کے قیام کے وقت کیے گئے ایک بڑے معاہدے میں کیا گیا تھا۔
ش ر⁄ ک م (اے ایف پی)
جرمنی میں مقیم ترک نژاد شہریوں کی طرز زندگی
جرمنی نے ساٹھ برس قبل ملک میں تربیت یافتہ مزدوروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ترک ’مہمان مزدوروں‘ کو بھرتی کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ جرمنی کے روہر میوزیم میں ترک باشندوں کی زندگی کے بارے میں ایک نمائش پیش کی جا رہی ہے۔
بون اور انقرہ کے درمیان سن 1961 میں ترک ملازمین کو بھرتی کرنے کے معاہدے کے بعد سے سن 1973 میں بھرتیاں بند ہونے تک ترکی سے 10 لاکھ سے زائد ’مہمان مزدور‘ جرمنی آئے تھے۔ آج ترک کمیونٹی، جرمنی میں سب سے بڑی نسلی اقلیتی برادری ہے۔
جرمنی کو 1950ء کی دہائی میں تیزی سے معاشی ترقی کی وجہ سے تربیت یافتہ مزدوروں کی کمی کا سامنا تھا، خاص طور پر زراعت اور کان کنی کے شعبوں میں۔ ڈوئسبرگ کی والزم کان میں کام کرنے والے دو کان کن اپنی شفٹ مکمل کرنے سے قبل ایک گاڑی میں بیٹھے ہیں۔
سن 1990 میں استنبول میں مقیم فوٹوگرافر ایرگُن چاتائے نے جرمن شہر ہیمبرگ، کولون، برلن اور ڈوئسبرگ میں ترک نژاد افراد کی ہزاروں تصویریں کھینچی تھی۔ روہر میوزیم میں ایک خصوصی نمائش کے حصے کے طور پر ’’ہم یہاں سے ہیں: 1990ء میں ترک جرمن زندگی‘‘ کے عنوان سے یہ تصاویری نمائش پیش کی جا رہی ہے۔
سن 1989 میں دیوار برلن کے انہدام سے سابقہ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے دوران جرمنی ایک کثیر الثقافتی یا ملٹی کلچرل سوسائٹی بننے کے عمل میں تھا۔ اس تصویر میں مظاہرین 31 مارچ 1990ء کو ہیمبرگ میں تارکین وطن سے متعلق ایک نئے قانونی مسودے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔
یہ نمائش جرمنی میں ترکی کے ’مہمان ملازمین‘ کی پہلی اور دوسری نسل کی نقل مکانی کی جامع کوریج ہے۔ اس تصویر میں ہیمبرگ میں مقیم حسن حسین گل کا آٹھ افراد پر مشتمل کنبہ اپنے گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کولون میں یہ ترک تارکین وطن کی سبزیوں اور پھلوں کی دکان ہے۔ آج کل جرمنی میں زیتون اور بھیڑ کے دودھ سے تیار کردہ پنیر جیسی ترک مصنوعات بہت آسانی سے مل سکتی ہیں۔ لیکن ماضی میں مہمان مزدور ترکی سے واپسی کے دوران اپنی گاڑیوں میں کھانے پینے کی چیزیں بھر بھرکر اپنے ساتھ لاتے تھے۔
کولون شہر کے ایک پلے ایریا میں ترک نژاد بچے غباروں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ان کے پس منظر میں دیوار پر درخت کی تصویر کے ساتھ ترک شاعر ناظم حکمت کی ایک نظم کا اقتباس لکھا ہے۔ ’’جینے کے لیے! درخت کی طرح تنہا اور آزاد۔ جنگل کی طرح بھائی چارے میں۔ یہ تڑپ ہماری ہے۔‘‘ حکمت روس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، جہاں سن 1963 میں ان کا انتقال ہوا تھا۔
جرمن شہر ویرل کی فتح مسجد میں قائم ایک مدرسے میں ترک نژاد بچے عربی حروف سیکھ رہے ہیں تاکہ وہ قرآن پڑھ سکیں۔ جرمنی میں اُس وقت مینار کے ساتھ تعمیر ہونے والی یہ پہلی مسجد تھی۔ اس سے قبل زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کے احاطے میں نماز پڑھتے تھے۔
ترک فوٹوگرافر ایرگُن چاتائے نے برلن کے ضلع کروئزبرگ میں منعقدہ ایک ترکش شادی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ دولہا دلہن کو مہمان نوٹوں کے ہار پہنا رہے ہیں۔ روایتی طور پر نیا شادی شدہ ترک جوڑا اپنے بستر میں ایک ہی بڑے تکیے کا استعمال کرتا ہے۔
جرمنی میں بسنے والے زیادہ تر ترک تارکین وطن عموماﹰ اپنی روایات سے جڑے رہتے ہیں۔ برلن میں ایک ترک بچے کے ختنہ کی تقریب منائی جا رہی ہے۔ ایرگُن چاتائے کی تصویروں کی نمائش ہیمبرگ اور برلن کے علاوہ ازمیر، انقرہ اور استنبول میں منعقد کی جائے گی۔