لوئر سیکسنی کی پارلیمانی عمارت پر اسلام پسندانہ سیاسی نعرے
14 ستمبر 2024
وفاقی جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے دارالحکومت ہینوور میں صوبائی پارلیمان کی عمارت پر گزشہ رات نامعلوم ملزمان نے انتہا پسندوں کی ایک دہشت گرد تنظیم کے اسلام پسندانہ سیاسی نعرے لکھ دیے اور اس کے نشانات بھی بنا دیے۔
اشتہار
ہینوور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق شمالی جرمنی کے اس شہر میں ریاستی پارلیمان کی عمارت پر گرافیٹی کی صورت میں سیاسی نعرے لکھے اور علامات بنائے جانے کا یہ واقعہ جمعہ 13 ستمبر اور ہفتہ 14 ستمبر کی درمیانی رات پیش آیا۔
صوبائی پارلیمان کی خاتون سربراہ ہانا نابر نے آج ہفتے کے روز بتایا کہ لوئر سیکسنی کی پارلیمان کی عمارت کو ''انتہا پسندانہ اسلامی سوچ کی حامل ایک دہشت گرد تنظیم کے سیاسی نعروں اور نشانات سے بدنما بنا دیا گیا۔‘‘ حکام نے یہ نہیں بتایا کہ اسلام کے نام پر دہشت گردانہ سوچ رکھنے والی یہ تنظیم کون سی ہے۔
ہانا نابر نے کہا، ''یہ ایک مجرمانہ فعل ہے، جس کی میں سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہوں۔‘‘
ہینوور پولیس کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب تین اور چار بجے کے درمیان نامعلوم افراد نے ریاستی پارلیمان کی عمارت پر یہ نعرے اور علامات سرخ رنگ سے پینٹ کیے۔‘‘ یہ گرافیٹی عمارت کے داخلی دروازے کے قریبی ستونوں کے علاوہ اس عمارت کے سامنے والے دیگر حصوں پر بھی بنائی گئی۔
حکام نے بتایا کہ انہوں نے ''صبح سویرے ملنے والے چند شواہد محفوظ کر کے‘‘ چھان بین شروع کر دی ہے۔ پولیس کی طرف سے تفتیش جاری ہے لیکن اس واقعے کی لوئر سیکسنی کی پارلیمان کی طرف سے اپنے طور پر بھی داخلی چھان بین کی جائے گی۔
اس سلسلے میں پارلیمان کی سربراہ ہانا نابر نے کہا، ''لوئر سیکسنی کی پارلیمان جمہوری بحث کی بھرپور حمایت کرتی ہے، لیکن ہم اپنی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے اس واقعے کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے جانے کو بھی یقینی بنائیں گے۔‘‘
زولنگن حملہ اور جرمنی ميں مسلم کميونٹيز کو درپيش چيلنجز
02:57
پارلیمان کے دروازے عوام کے لیے کھلے
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ہینوور شہر میں یہ واقعہ صوبائی پارلیمان کے 'اوپن ڈے‘ سے محض ایک رات قبل پیش آیا۔ پارلیمان کی انتظامیہ کے مطابق 'اوپن ڈے‘ پروگرام میں اس واقعے کے باعث کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
آج ہفتہ 14 ستمبر کو ہینوور میں لوئر سیکنسی کی پارلیمان کے دروازے ہر سال منائے جانے والے 'اوپن ڈے‘ کے موقع پر عوام کے لیے کھلے رکھے جائیں گے۔ اس دوران صوبائی قانون ساز ادارے کی کارکردگی میں دلچسپی رکھنے والے عام شہری پارلیمان کا دورہ کر کے خود کو ہر حوالے سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
وفاقی چانسلر اولاف شولس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی صوبائی پارلیمانی اسپیکر ہانا نابر کے الفاظ میں، پارلیمانی عمارت کی بے توقیری اور بدنمائی کے اس واقعے کے باعث ''اوپن ڈے پروگرام کسی بھی طرح متاثر نہیں ہو گا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔‘‘
م م / ا ا (ڈی پی اے، ای پی ڈی)
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔