جرمنی کے دو شہروں برلن اور کولون میں ہزاروں مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی خاطر زیادہ دلیرانہ اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
اشتہار
خبر رساں اداروں کے مطابق ہفتے کے دن جرمن دارالحکومت برلن اور کولون میں ہزاروں ماحول دوست مظاہرین نے تونائی کے شعبے میں کوئلے پر انحصار کو کم کرنے کی خاطر احتجاج کیا۔
منتظمین کے مطابق ان مظاہروں کا مقصد برلن حکومت پر زور دینا ہے کہ وہ کوئلے کے بجائے توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ مرکوز کرے۔ ناقدین کے مطابق کوئلے کے استعمال سے ماحول آلودہ ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ بنتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ’گرین پیس انٹرنیشنل‘ مہم سے وابستہ جینیفر مورگن کے حوالے سے بتایا کہ جرمنی کو سن دو ہزار تیس تک بتدریج کوئلے کا استعمال ختم کر دینا چاہیے۔
مورگن نے مزید کہا کہ نہ صرف جرمنی بلکہ دیگر ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ متبادل توانائی کے ذرائع پر زیادہ سرمایہ کاری کریں۔ ان کے مطابق اس تناظر میں شمسی توانائی اور ونڈ پاور ماحول دوست ہیں اور ان پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔
یہ مظاہرے ایک ایسے وقت پر منعقد کیے گئے، جب ہمسایہ ملک پولینڈ میں اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق ایک سمٹ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ برلن حکومت نے کوئلے پر انحصار ختم کرنے کے لیے ایک منصوبہ پیش کرنا تھا تاہم متعلقہ کمیٹی اب یہ منصوبہ عالمی سمٹ کے بعد جاری کرے گی۔
ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے
ماحولیاتی بحران، آپ کے توشہ خانے میں پنہاں
پائیدار فیشن زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کر رہا ہے، جس کی ایک وجہ ماحول دوست بلاگرز بھی ہیں۔ مگر فیشن کی دنیا میں تیز رفتار تبدیلی اور زیادہ سے زیادہ صارفین پیدا کرنے کی کوششوں کے سبب یہ معاملہ ہنوز ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
صورتحال زیادہ بہتر نہیں
فیشن میں تیز رفتار تبدیلی کے ماحولیات پر اثرات اُس سے کہیں زیادہ ہیں جتنا صارفین سمجھتے ہیں۔ جرمنی میں پرانے کپڑے جمع کر کے انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا ایک نظام موجود ہے۔ پھر بھی ان کا زیادہ تر حصہ ایسے ممالک کو بھیج دیا جاتا ہے جہاں ایسا نظام نہیں ہے اور جہاں یہ کپڑے کوڑے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق صنعتی پانی کا 17 سے 20 فیصد کپڑوں کو رنگنے کے سبب آلودہ ہوتا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
پائیداری کو فیشن کا حصہ بنانا
پائیدار فیشن کی ترغیب دینے والے زیادہ تر بلاگرز اس طرح کے سوالات سامنے لا رہے ہیں کہ کونسے برانڈز اور کمپنیوں کی مصنوعات ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہیں۔ برلن سے تعلق رکھنے والی فیشن بلاگر میا ماریانو وچ کے مطابق ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ان کے ساتھ اس طرح کے معاملات پر اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
تصویر: heylilahey.com
ماحول دوست برانڈز
آن لائن اس بارے میں کافی معلومات موجود ہے جو پائیدار مصنوعات خریدنے کے لیے صارفین کی مدد کر سکتی ہے۔ تاہم بہت سے بلاگرز کے مطابق یہ معلومات ضروری نہیں کہ بالکل درست ہو۔ برانڈز کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی چھوٹی سی کامیابی کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔ لیکن ’رینک اے برانڈ‘ اور ’ایتھیکل کنزیومر‘ جیسی کچھ آزاد تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو غیر جانبدار رینکنگ اور تحقیق پیش کرتی ہیں۔
تصویر: DW/H. Franzen
گراں قیمت
پائیدار فیشن تک رسائی ابھی بہت کم لوگوں کو حاصل ہے۔ ماحول دوست کپڑوں کی قیمت عام کپڑوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ استعمال شدہ کپڑے خریدنا ایک ممکنہ صورت ہے، مگر ماحول دوست فیشن تحریک زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوششوں میں ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Y. Tylle
کام جاری
اسٹیلا میککارٹنی جیسے برانڈز ماحول دوست فیشن کے حوالے سے پہنچانے جاتے ہیں۔ مگر گزشتہ 15 برسوں کے دوران دنیا بھر میں متوسط طبقہ عام فیشن کی جانب زیادہ راغب ہوا ہے۔ کمپنیاں اپنی چیزوں کی فروخت کے لیے سوشل میڈیا کی مدد بھی لے رہی ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پائیدار فیشن کے حامی بلاگرز’کم سے کم استعمال‘ کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔