ایک تازہ تحقیقی جائزے کے مطابق جرمن عوام کی اکثریت ملک میں مزید مہاجرین کی آمد کے خلاف ہے۔ تاہم جرمنی میں اب بھی مہاجرین کو معاشرے میں قبول کرنے کی شرح یا ’ویلکم کلچر‘ کافی حد تک باقی ہے۔
اشتہار
بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک منتخب تحقیقی جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 54 فیصد جرمن عوام مزید تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ اسی ادارے کی جانب سے سن 2015 میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے سے پہلے بھی ایک ایسا ہی سروے کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی چالیس فیصد جرمن عوام کی رائے مہاجرین کی جرمنی آمد کے خلاف تھی۔
تحقیقی جائزے میں لکھا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ جرمنی میں مہاجرین کی تعداد بریکنگ پوائنٹ یا اپنی انتہائی حد کو پہنچ چکی ہے۔ اسی لیے مہاجرین اور تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ دیے جانے کے حامی عوام کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔
دوسری جانب اسی جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جرمن عوام کی اکثریت اب بھی اصولی طور پر مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے حق میں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفت گو کرتے ہوئے بیرٹلزمان فاؤنڈیشن سے وابستہ مہاجرین کے امور کی ماہر اُرلش کوبر کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں یہ بہت اہم بات ہے کہ بڑی تعداد میں مہاجرین کی جرمنی آمد کے دو سال بعد بھی عوام میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی روایت موجود ہے۔‘‘
محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ جرمنی میں سماجی سطح پر مہاجرین کو خوش آمدید کہنے اور انہیں قبول کرنے کا رجحان ابھی تک مثبت ہے لیکن اس حوالے سے لوگوں میں شکوک و شبہات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا اندازہ تحقیقی جائزے کے نتائج میں بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔
جائزے میں شامل 74 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ کہ وہ تارکین وطن کے بارے میں کھلا ذہن رکھتے ہیں لیکن دوسری جانب 59 فیصد لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب وہ جرمنی میں مزید تارکین وطن کو پناہ دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
رواں برس جرمنی میں انتخابات کا سال ہے۔ ان انتخابات میں ملک میں مہاجرین کا موضوع کافی اہمیت رکھتا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سن 2015 میں ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ملکی سرحدیں مہاجرین کے لیے کھول دی تھیں۔ زیادہ تر ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مہاجرین اور تارکین وطن کی جرمنی آمد کے بعد میرکل کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کی عوامی مقبولیت میں بھی بتدریج کمی واقع ہوئی تھی۔
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔