جرمنی میں مزید کئی ادویات کی قلت
16 فروری 2023جرمن دارالحکومت برلن کے ترک نژاد ادویات فروش فاتح کائنک کہتے ہیں کہ بخار کم کرنے والے پیراسیٹامول شربت کی کمیابی کا انہوں نے حل یہ نکالا کہ اب ان کے پیشہ ور دوا سازوں کی ٹیم اپنا ہی پیراسیٹامول شربت تیار کرتی ہے، جو خاص طور پر ان چھوٹے بچوں کے لیے ہوتا ہے جو اس دوائی کی گولیاں آسانی سے نہیں نگل سکتے۔
فرانسیسی نوجوانوں کے لیے ادویات کی دکانوں سے کنڈوم اب مفت
جب انہوں نے باقاعدہ قانونی اجازت لے کر پہلی مرتبہ یہ شربت تیار کروایا، تو بچوں کے امراض کے ایک قریبی ڈاکٹر کے ذریعے اس کا کئی مریضوں پر تجربہ بھی کیا گیا تو نتائج مثبت اور حوصلہ افزا تھے۔ فاتح کائنک کہتے ہیں کہ وہ خوش ہیں کہ ان کی کمپنی کا تیار کردہ پیراسیٹامول کا شربت ذائقے میں بھی اچھا ہے اور اپنے طبی اثرات میں بھی کئی دیگر مشہور کمپنیوں کے تیار کردہ شربتوں سے بہتر بھی۔
پورے ملک میں سوا چار سو ادویات کی قلت
جرمنی میں دوا فروشوں کی کئی تنظیموں کے مطابق پورے ملک میں اس وقت ایسی ادویات کی تعداد تقریباﹰ 425 بنتی ہے، جن کی ترسیل میں اکثر تاخیر ہو جاتی ہے اور جو زیادہ تر کافی مقدار میں سپلائی نہیں کی جاتیں۔ فاتح کائنک کے مطابق، '' ایسی ادویات میں پینیسیلین، کئی طرح کی اینٹی بائیوٹکس، حتیٰ کہ بلڈ پریشر کم کرنے والی اور سرطان، معدے اور دل کے امراض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات بھی شامل ہیں۔‘‘
جہاں تک سرکاری اعداد و شمار کا تعلق ہے تو جرمنی میں ادویات کی کمیابی ریکارڈ کرنے والے مرکزی وفاقی ڈیٹا بینک PharmNet.Bund کے مطابق بھی ملک میں اس وقت 425 ادویات ایسی ہیں، جو ترسیل میں جمود یا کمیابی کے باعث دوا فروشوں اور ان کے ذریعے مریضوں کو مہیا نہیں کی جا سکتیں۔
ادویات کی قلت مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے، جرمن ڈاکٹروں کی تنبیہ
سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دوا فروش اداروں کی صوبائی تنظیم سے ابھی حالہ ہی میں جب یہ پوچھا گیا کہ ان کے ہاں کن ادویات کی کمی ہے، تو صرف 48 گھنٹے کے اندر ہی 400 سے زائد دوا فروشوں نے جو جوابات دیے، ان کے مطابق ان کے پاس عام صارفین ڈاکٹروں کے لکھے جو نسخے لے کر آتے اور ادویات کے حصول کے خواہش مند ہوتے ہیں، ان میں سے ہر پانچواں طبی نسخہ ایسا ہوتا ہے، جو ادویات کی قلت سے متاثر ہوتا ہے۔
یوں یہ ڈرگ سٹورز جب اپنے گاہکوں کو ان ادویات کی ترسیل کے لیے اضافی اقدامات کرتے ہیں، تو ان میں سے ہر کیمسٹ کے کاروبار کو صرف اسی وجہ سے ہی اوسطاﹰ ماہانہ تقریباﹰ تین ہزار یورو کے اضافی اخراجات کا سامنا رہتا ہے۔
ہمیشہ نظر رکھنا پڑتی ہے
برلن کے کیمسٹ فاتح کائنک کہتے ہیں کہ وہ سپلائی میں تعطل اور جمود سے پیدا ہونے والے اس مسئلے کے حل کے لیے مرکزی آن لائن مانیٹر کے ذریعے ہر گھنٹے اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ تھوک میں ادویات کی تجارت کرنے والے اداروں کے پاس کون کون سی کمیاب ادویات کی نئی سپلائی آئی ہے۔
پاکستانی عوام کے لیے پیناڈول کا فقدان ایک درد سر
وہ کہتے ہیں، ''میں دیکھتا رہتا ہوں کہ ہول سیلرز کون کون سی کمیاب ادویات پھر سے سپلائی کر سکتے ہیں۔ مجھے جیسے ہی ایسی کوئی دوائی دوبارہ قابل ترسیل نظر آتی ہے، میں اس کے سو پیکٹ آرڈر کر دیتا ہوں، یوں مجھے کم از کم اس کے پانچ پیکٹ تو مل ہی جاتے ہیں۔‘‘
ادویات کون سی، مہنگی یا سستی؟
جرمنی میں ہر کسی کے لیے صحت کی انشورنس لازمی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ مختلف ہیلتھ انشورنس کمپنیوں نے یہ شرط رکھی ہوتی ہے کہ ان کے صارفین کو مریضوں کے طور پر اور ڈاکٹری نسخے پیش کیے جانے کے بعد دوا فروش جو ادویات مہیا کریں، وہ مارکیٹ میں اپنی قیمتوں کے لحاظ سے بہت معیاری تو ہوں ہی لیکن سب سے کم قیمت بھی ہوں۔
بھارتی کمپنی کی ممکنہ طور پر جان لیوا ادویات کی پیداوار بند
ملک میں ادویات کی قلت کے باعث جرمن ہیلتھ انشورنس کمپنیوں نے اب یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ انہوں نے دوا فروشوں کو مشروط طور پر اس پابندی سے آزاد کر دیا ہے۔ یعنی اگر کوئی کم ترین قیمت والی دوائی دستیاب نہ ہو تو کیمسٹ مریضوں کو دیگر دوا ساز اداروں کی تیار کردہ ایسی ادویات بھی دے سکتے ہیں جو مقابلتاﹰ زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔
قانوی اصلاحات کی ضرورت
ادویات کی کمیابی کے باعث ان کی طے شدہ قیمتوں سے متعلق جرمن قانون پر عمل درآمد فی الحال اس سال مئی تک کے لیے معطل کیا گیا ہے۔ لیکن اب ساتھ ہی وفاقی جرمن وزارت صحت ایسی بنیادی قانونی اصلاحات کی تیاریاں بھی کر رہی ہے، جن کی مدد سے ادویات کی قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار بنیادی طور پر بدلتے ہوئے مزید بہتر بنا دیا جائے گا۔
اس قانونی ترمیم سے ملکی ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کے مجموعی اخراجات تو کئی ملین یورو زیادہ ہو جائیں گے، تاہم اس کا عملی فائدہ یہ ہو گا کہ ادویات کی قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار شفاف تر اور آسان ہو جائے گا، جس سے بالآخر فائدہ مریضوں ہی کو پہنچے گا۔
ادویات ٹافیوں کی طرح کھانے کا رجحان اور مفت طبی مشورے
موجودہ تین جماعتی مخلوط حکومت میں شامل سب سے بڑی جماعت، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یا ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر صحت کارل لاؤٹرباخ تو اس صورت حال کو 'ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''یہ امر ناقابل قبول ہے کہ بچوں کے لیے بخار کے شربت جرمنی سے باہر دیگر ممالک میں تو آسانی سے مل جائیں، لیکن جرمنی میں داخلی طور پر نہیں۔‘‘
بہتری 'اگلے ہی دن‘ تو نہیں آئے گی
جرمنی میں صنعتی پیمانے پر دوا سازی کرنے والے پیداواری اداروں کی ملکی تنظیم کے ایک مرکزی رہنما ہوبیرٹس کرانس کہتے ہیں، ''چیلنج واقعی بہت بڑے ہیں، لیکن ان کا حل یہ تو نہیں کہ دوا ساز صنعتی اداروں پر پڑنے والا بوجھ مزید بڑھا دیا جائے۔‘‘
وہ کہتے ہیں، ''ہم اس بات پر خوش ہیں کہ جرمنی میں جینیرک ادویات کو اس لیے زیادہ توجہ مل رہی ہے کہ ادویات کی ترسیل میں تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم مجموعی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے جامع اقدامات تو کسی اور ہی چیز کا نام ہوتا ہے، جو ابھی تک دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘
ادویات کی قیمتوں میں اضافہ: غریبوں کے لئے مشکلات کا پیغام
برلن کے ترک نژاد دوا فروش فاتح کائنک کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال کو صرف ایک ہی دن میں تو کوئی پھونک ما رکر بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ وہ اپنے موقف میں جرمن وزیر صحت کی سوچ سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب سالہا سال تک بہت کچھ غلط یا غلط سمت میں ہوتا رہے، تو آپ ایسی سب باتوں کا تدارک انتہائی مختصر وقت میں تو نہیں کر سکتے۔
یہی بات وزیر صحت لاؤٹرباخ بھی کہہ چکے ہیں، ''دواؤں کی ترسیل کے عمل میں برس ہا برس تک زیادہ تر اقتصادی پہلوؤں اور مالی رعایتوں کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے حالات کو مسلسل خراب ہونے دیا گیا۔ اس پورے عمل کی الٹی سمت میں تکمیل اب ایسے تو ممکن نہیں ہو سکتی کہ آپ رات کو سو کر صبح جاگیں، تو سب کچھ بدلا ہوا ہو۔‘‘
م م / ش ح (زابینے کِنکارٹس)