جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف جرائم اور مساجد پر حملوں میں گزشتہ برس کے دوران کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسے واقعات کی اصل تعداد پیش کیے جانے والے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اشتہار
جرمن حکام نے تصدیق کی ہے کہ2017ء کے مقابلے میں 2018ء کے دوران مسلمانوں اور مساجد پر حملوں میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نیو اوسنابروکر سائٹنگ نے لکھا ہے کہ گزشتہ برس 813 جبکہ 2017ء میں اسلام مخالف 950 حملوں کی رپورٹ درج کروائی گئی ۔
تاہم دوسری جانب ان حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 32 سے بڑھ کر 54 ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ رپورٹ درج کرانے میں سستی یا تاخیر کی وجہ سے ایسے واقعات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ملک میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کا بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے جرائم کی تعداد حقیقتاً کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔ یہ اعدادو شمار بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی کی جانب سے پارلیمان میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں جاری کیے گئے ہیں۔
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert
9 تصاویر1 | 9
حکام کا خیال ہے کہ اس طرح کے تمام حملوں کے پیچھے دائیں بازو کے شدت پسندوں کا ہاتھ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسلم برادری کے خلاف کیے جانے والے جرائم کے دوران مساجد پر نازی علامتی نشانات بنائے گئے، مسلمانوں کو دھمکی آمیز خطوط بھیجے گئے، ان کے ساتھ بدکلامی کی گئی، املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور نفرت کا اظہار کیا گیا۔
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے رہنما ایمن مازییک نے برلن حکومت سے ایک نمائندہ تنظیم بنانے کا مطالبہ کیا ہے، جو مسلم برادری کے خلاف رونما ہونے والے ان واقعات کا جائزہ لے سکے۔ ان کے بقول نفرت انگیزی پر مبنی حملوں میں کمی کی ایک وجہ مسلم مہاجرین کی جرمنی آمد میں کمی بھی ہے۔