جرمنی میں مسجد پر بم حملے کے ملزم کو دس سال سزائے قید
31 اگست 2018
جرمنی کے مشرقی شہر ڈریسڈن میں مسلمانوں کی ایک مسجد اور اس سے ملحقہ کانگریس سینٹر پر دھماکا خیز مواد سے حملہ کرنے والے ملزم کو قریب دس سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ یہ حملہ ستمبر دو ہزار سولہ میں کیا گیا تھا۔
اشتہار
ڈریسڈن سے جمعہ اکتیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق قریب 23 ماہ قبل 26 ستمبر 2016ء کے روز یہ حملہ کرنے والے ملزم کا نام نینو ہے اور اس نے اس حملے میں گھر پر خود تیار کیے گئے ’پائپ بم‘ استعمال کیے تھے۔
اس مقدمے میں وفاقی جرمن صوبے سیکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن میں قائم ایک صوبائی عدالت نے ملزم نینو کو آج جمعے کو نو سال آٹھ ماہ کی سزائے قید کا حکم سنا دیا۔ عدالت کے مطابق ملزم پر اقدام قتل، اپنے پاس غیر قانونی طور پر دھماکا خیز مواد رکھنے اور دو بڑے آتشیں حملے کرنے کے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
وکیل استغاثہ کی طرف سے اس مقدمے میں ملزم کے دس سال نو ماہ کی سزائے قید سنانے کی استدعا کی گئی تھی۔ صوبائی عدالت کی طرف ملزم نینو کو سنائی گئی سزائے قید اپنے دورانیے میں استغاثہ کی درخواست کردہ مدت سے صرف 13 ماہ کم ہے۔
اس حملے میں ملزم نے ڈریسڈن شہر میں پہلے مسلمانوں کی فاتح مسجد کہلانے والی عبادت گاہ کے سامنے دیسی بم کا ایک دھماکا کیا تھا، جس کے نتیجے میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا تھا حالانکہ تب اس مسجد کا امام اور اس کے اہل خانہ مسجد ہی سے ملحقہ اپنی رہائش گاہ میں موجود تھے۔
مسجد کے سامنے اس بم دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد قریب ہی واقع بین الاقوامی کانگریس سینٹر کے سامنے بھی ملزم نے اسی طرح کا ایک اور بم دھماکا کیا تھا۔
یہ دونوں دھماکے دو سال قبل ستمبر کے اواخر میں کیے گئے تھے اور تب تین اکتوبر کو ہر سال منایا جانے والا یوم اتحاد جرمنی بھی قریب ہی تھا۔ اس حملے کی تب پورے جرمنی میں سبھی سیاسی جماعتوں، مذاہب کے پیروکاروں اور سماجی حلقوں نے کھل کر مذمت کی تھی۔
جرمنی کی اکثر مساجد میں ہر سال تین اکتوبر کو مسلمان اپنی عبادت گاہوں کو ہر مذہب کے پیروکاروں کے لیے کھول دیتے ہیں اور اس موقع پر بین المذاہبی مکالمت کے ذریعے مذاہب کے مابین افہام و تفہیم اور باہمی احترام کی ترویج کی کوشش کی جاتی ہے۔
م م / ع ب / اے ایف پی
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔