جرمنی میں رواں سال مسلمانوں، مساجد اور مسلمانوں کے دیگر اداروں پر حملوں میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی۔ جرمنی کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت کے پارلیمانی گروپ نے وفاقی حکومت سے اس بارے میں تازہ ترین اعداد و شمار طلب کیے تھے۔
اشتہار
جرمن صوبی لوور سیکسنی کے ایک روزنامے 'نوئے اُسنابروکر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی کی بائیں بازو کی جماعت 'ڈی لنکے‘ کے پارلیمانی دھڑے نے وفاقی جرمن حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں جرمنی میں آباد مسلمانوں، ان کی عبادت گاہوں یعنی مساجد اور ان کے دیگر اداروں پر ہونے والے حملوں کے نئے اعداد و شمار پیش کرے۔ اس کے جواب میں وفاقی حکومت نے سال 2021 ء کی پہلی سہ ماہی یعنی جنوری سے مارچ تک کے جو اعداد و شمار جاری کیے اُن سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ عرصے کے دوران جرمنی بھر میں اسلام دشمن یا اسلام مخالف جذبات کے تحت مسلمانوں، مساجد اور دیگر مسلم اداروں پر ہونے والے حملوں کی تعداد 91 رہی جبکہ اس سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں گزشتہ برس کی آخری سہ ماہی کے دوران ایسے واقعات کی تعداد 197 ریکارڈ کی گئی تھی اور گزشتہ برس کی پہلی سہ ماہی میں اسلام دشمن رجحان کے ضمن میں 275 حملے دیکھنے میں آئے تھے۔ علاوہ ازیں 2021 ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران اسلام دشمن جذبات کے اظہار میں کیے جانے والے حملوں میں دو افراد زخمی ہوئے جبکہ اُس سے پہلے والی سہ ماہی میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 6 ریکارڈ کی گئی تھی۔
جرمنی میں ان واقعات میں کمی کی نشاندہی کے باوجود محض ریاضی کی اصطلاح کے طور پر اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو جرمنی میں روزانہ ایک 'اسلامو فوبک‘ واقعہ ضرور رونما ہوتا ہے۔ بائیں بازو کی جماعت ' ڈی لنکے‘ کے پارلیمانی دھڑے کی رکن اولا ژیلپکے نے وفاقی جرمن حکومت کے سامنے یہ سوال رکھا تھا اور ان واقعات کے تازہ ترین اعداد شمار پیش کرنے کی درخواست کی تھی۔
دریں اثناء بائیں بازو کے دھڑے نے کہا ہے کہ ان واقعات کے اندراج کے بعد حتمی اعداد و شمار میں اضافے کا امکان ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں حالیہ دنوں میں مساجد کے خلاف چھ کارروائیوں کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ ان کارروائیوں کے دوران اشتعال انگیز بیانات، توہین، زبانی اذیت دینے یا جھڑکنے، مذہبی رسم و رواج میں خلل ڈالنے اور املاک کو نقصان پہنچانے جیسے عوامل شامل تھے۔ جرمنی میں مسلمان، دیگر اقلیتیں کیسے ’کونے میں دھکیلی‘ جا رہی ہیں
معاشرتی بیداری خوش آئند
بائیں بازو کی جماعت ' ڈی لنکے‘ کے پارلیمانی دھڑے کی رکن اور جرمنی کی داخلہ سیاسی امور کی ماہر اولا ژیلپکے نے تاہم ان نئے اعداد و شمار پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بقول جرمنی میں کئی برسوں کے بعد اسلام مخالف جذبات پر مبنی حملوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اولا اس کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں شعور کی بیداری قرار دیتی ہیں اور اس سلسلے میں میڈیا کا سیاست اور معاشرت میں کردار بہت مثبت سمجھتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ میڈیا میں گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح نسل پرستی کی مذمت کی گئی ہے اُس کا اس نئے رجحان میں بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے خاص طور سے تحریک (Black lives Matter) کو نسل پرستی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کے جذبے کو اجاگر کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس رجحان میں جس قدر کمی دیکھنے میں آنے لگی ہے وہ میرے تصور سے کہیں زیادہ ہے اور اس پر مکمل اعتبار کرنا میرے لیے مشکل ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ابھی اس تمام صورتحال کا بغور جائزہ لینا اور اس پر مزید توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ بائیں بازو کی جرمن سیاستدان کے مطابق، ''جرمن معاشرے میں ذہنیت میں بدلاؤ آیا ہے یا نہیں، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ فی الحال تمام حالات و واقعات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
جرمنی میں عیدالفطر کی رونقیں
جرمنی میں کچھ مسلمانوں نے عیدالفطر منگل کو منائی، جن میں زیادہ تر ترک مسلمان شامل تھے۔ دیگر مسلم حلقے یہ تہوار بدھ کو منا رہے ہیں۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں نمازِ عید کے بڑے بڑے اجتماعات ہوئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
عید کی خوشیاں، مِکّی ماؤس کے ساتھ
جرمن دارالحکومت برلن کے علاقے نیو کولون میں عید الفطر کے موقع پر ایک مسلمان ماں ایک سٹریٹ فیسٹیول کے دوران اپنے بچوں کی تصاویر مِکّی اور مِنی ماؤس کے کرداروں کے ساتھ اُتار رہی ہے۔ برلن میں ہزارہا مسلمان آباد ہیں، جن کی بڑی تعداد ترک اور عرب باشندوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
عید پر مٹھائیاں
عید الفطر کا استقبال رنگا رنگ اور مختلف النوع ذائقوں والی مٹھائیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ منظر بھی برلن کے علاقے نیو کولون کا ہے، جہاں پناہ کی تلاش میں آنے والے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ وہاں سٹریٹ فیسٹیول میں شریک ایک شخص نے اپنے ہاتھ میں چینی کی پیسٹریاں اُٹھا رکھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
انواع و اقسام کے کھانے
مسلمان ماہ رمضان میں سحری سے لے کر افطاری تک کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر قسم قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں۔ برلن کے علاقے نیو کولون میں ایک شخص ’فلافل‘ تیار کر رہا ہے، جنہیں خاص طور پرعرب دنیا میں شوق سے کھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
پناہ کے متلاشیوں کی عید
شامی پناہ گزین احمد شابو نے اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ عیدالفطر کا تہوار منگل کو منایا۔ یہ تصویر جرمن دارالحکومت برلن کے علاقے نیو کولون میں ایک مسجد کے قریب اُتاری گئی۔ برلن کے اس علاقے میں زیادہ تر عرب دنیا سے آئے ہوئے تارکینِ وطن آباد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
ہیمبرگ میں نمازِ عید
جرمنی کے شمال میں واقع بندرگاہی شہر ہیمبرگ کے النور مرکز کی جانب سے عید کی نماز کا اہتمام وسیع و عریض ’اسپورٹس ہال‘ میں کیا گیا، جہاں ہر رنگ و نسل کے اور ملکوں ملکوں سے آئے ہوئے مسلمانوں نے مل کر عید کی نماز پڑھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Schulze
ایک ہال میں ہزاروں نمازی
ہیمبرگ کے اسلامی مرکز النور کی جانب سے شہر کے اسپورٹس ہال میں عید کی نماز کا بند و بست کیا گیا تھا، جہاں ایک ساتھ تین ہزار مسلمان نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس بار یہاں مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے نمازِ عید ادا کی گئی۔ عید کا خطبہ نہ صرف عربی بلکہ جرمن زبان میں بھی دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Schulze
شکرانے کا موقع
ہیمبرگ کے اسپورٹس ہال میں نمازِ عید کا ایک اور منظر۔ عیدالفطر کے تہوار پر مسلمان خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ماہِ رمضان کے دوران اُنہیں استقامت کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Schulze
بون میں انڈونیشی مسلمانوں کی عید
جرمن شہر بون میں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوان عیدالفطر کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تصاویر اُتار رہے ہیں۔ یہ تہوار آپس میں اجتماعی طور پر خوشی منانے اور آپس میں مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
تصویر: DW/Y. Farid
خواتین اور بچوں کی خوشی دیدنی
جرمنی بھر کی مساجد میں خواتین کے لیے بھی نمازِ عید کا الگ اہتمام کیا گیا تھا۔ جرمن شہر بون کی اس تصویر میں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ عید کی نماز ادا کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Y. Farid
میٹھی عید
عیدالفطرکو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے۔ جرمن زبان میں اسے Zuckerfest یعنی ’چینی کا تہوار‘ یا ’میٹھا تہوار‘ کہتے ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر کولون کی ایک مسجد کے امام ایک نمازی سے عید مل رہے ہیں۔