جرمنی میں مسلمانوں کے زیر انتظام پہلا قبرستان
19 اگست 2013وُوپرٹال میں یہودیوں کے قبرستان کے سامنے کھڑے ضمیر بُوعیسیٰ نے بالکل مخالف سمت میں ایک خالی قطعہء اراضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فخر سے بتایا کہ ’یہ قبرستان وہاں بنے گا‘۔ سب کچھ درست طور پر چلتا رہا تو نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی صوبائی اسمبلی اس سال نومبر میں اِس قبرستان کی منظوری دے دے گی۔ تدفین سے متعلق نئے قانون کے بعد فلاحی مذہبی اداروں اور مذہبی تنظیموں کو قبرستانوں کی انتظامی ذمے داری سونپنا ممکن ہو جائے گا۔ یہ قانون غالباً 2014ء کے اوائل میں نافذ العمل ہو جائے گا، جس کے بعد وُوپرٹال میں یہودیوں اور مسیحیوں کے قبرستانوں کے بالکل ساتھ جرمنی میں مسلمانوں کی بھی پہلی ابدی آرام گاہ بنے گی۔
ضمیر بُوعیسیٰ وُوپرٹال کے شہری ہیں لیکن بنیادی طور پر اُن کا تعلق مراکش سے ہے۔ اُن کا کنبہ گزشتہ دو نسلوں سے جرمنی میں آباد ہے۔ تین لاکھ چالیس ہزار کی آبادی والے وُوپرٹال کی تقریباً دَس فیصد آبادی مسلمان ہے۔ جہاں مہمان کارکنوں کی نسل ہر سال اپنے وطن جاتی ہے، وہاں ضمیر بُوعیسیٰ ہر چار یا پانچ سال بعد ہی مراکش کے سفر پر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’اپنے والدین کے برعکس ہمیں تعطیلات کے دوران اپنے پرانے وطن جانے کی زیادہ رغبت نہیں ہوتی‘۔ تاہم ایسے میں اپنے پرانے وطن میں اپنے پیاروں کی قبروں کی دیکھ بھال اور بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ضمیر بُوعیسیٰ کے بقول: ’’ہمارا ایمان ہے کہ زندگی موت کے بعد بھی جاری و ساری رہتی ہے۔ مرنے والا مر کر بھی کنبے کا فرد رہتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح اُسے بھی خاندان کے ساتھ جوڑ کر رکھا جاتا ہے، ایسے میں بہتر یہ ہے کہ اُس کی آخری آرام گاہ بھی قریب تر ہو۔‘‘
بہت سے مسلمان اب جرمنی میں گہری جڑیں رکھتے ہیں
جرمنی ہی میں پیدا ہونے والے بہت سے مسلمان یہاں گہری جڑیں رکھتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی یہیں رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مذہبی روایات اور فرائض کے باعث تدفین ایک مشکل فریضہ بن جاتی ہے۔ وُوپرٹال شہر کے مرکزی قبرستان میں مسلمانوں کے لیے بھی جگہ مخصوص ہے لیکن مسلمان ایک چیز سے گھبرا جاتے ہیں۔ بقول ضمیر بُوعیسیٰ ’ہمارے مذہب میں آخری آرام گاہ واقعی ابد تک ہوتی ہے‘ یعنی اُسے ہمیشہ رہنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جرمن قبرستانوں میں قبر کی جگہ صرف پچیس سال تک کے لیے ہوتی ہے۔ بعد میں لواحقین کو اس مدت میں توسیع کروانا پڑتی ہے۔
مسلمانوں کا پہلا قبرستان اور شہری انتظامیہ کی فراخ دلی
مسلمانوں کے اپنے زیر انتظام قبرستان میں آخری آرام گاہ واقعی ہمیشہ کے لیے ہو گی تاہم اس پر عام قبرستانوں کے مقابلے میں لاگت بھی زیادہ آئے گی، جسے پورا کرنے میں ابتدا میں مخیّر خواتین و حضرات کے عطیات معاون ثابت ہوں گے۔ وُوپرٹال کی پندرہ مساجد کی انجمنوں نے اس قبرستان کے انتظام کے لیے ایک مرکزی انجمن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قبرستان کے لیے شہری انتظامیہ کوئی مالی وسائل فراہم نہیں کرے گی۔ انضمام کے دفتر کے انچارج ہنس یُرگن لَیمر کہتے ہیں کہ ’ایسے مالی وسائل مسیحی قبرستانوں کو بھی فراہم نہیں کیے جاتے‘۔ تاہم لَیمر نے پہلے مسلم قبرستان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا: ’’تارکین وطن کے تعاون کے بغیر انضمام بھی ممکن نہیں ہے۔ مساجد کی انجمنیں بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور فلاحی منصوبوں میں سرگرم عمل ہیں۔ ایسے میں ہمارے جذبہء رواداری کے اعتبار سے یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ ہم اس طرح کے منصوبے پر مثبت ردعمل ظاہر کریں۔‘‘ لَیمر کے مطابق جرمنی کا شاید ہی کوئی اور شہر ایسا ہو، جہاں اتنی متنوع مذہبی برادریاں ایک ساتھ وجود رکھتی ہوں۔ اُن کے مطابق یہ ایسا شہر بھی ہے، جہاں برلن کے بعد سب سے زیادہ قبرستان ہیں۔
تین بڑے عالمی مذاہب کے قبرستان ایک ہی جگہ پر
وُوپرٹال میں پہلا مسلم قبرستان اُسی جگہ بنایا جائے گا، جہاں پہلے یہودیوں اور مسیحیوں کے بھی قبرستان ہیں۔ تینوں قبرستانوں میں داخلے کا ایک ہی دروازہ ہے، جس سے گزر کر تین بڑے عالمی مذاہب کے ماننے والوں کی آخری آرام گاہوں تک جایا جا سکتا ہے۔
جرمنی کے پہلے مسلم قبرستان کے لیے آج کل مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان ابتدائی بات چیت ہو رہی ہے۔ ضمیر بُوعیسیٰ کے مطابق پروٹسٹنٹ کمیونٹی کے ساتھ قبرستان کی اس جگہ کو خریدنے کے موضوع پر بات چیت ہو رہی ہے، جو ابھی تک خالی پڑی ہے۔ ابھی یہ بات چیت کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی لیکن ضمیر بُوعیسیٰ کے مطابق پروٹسٹنٹ کمیونٹی بھی پہلے مسلم قبرستان کے منصوبے کے حوالے سے مثبت سوچ رکھتی ہے تاہم یہ کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کچھ وقت ضرور لگ جائے گا: ’’جرمنی میں درحقیقت ابدی آرام گاہ والے پہلے مسلمان کی تدفین میں کچھ وقت لگے گا، میرے خیال میں ایسا اگلے دو سال میں ممکن ہو سکے گا۔‘‘