جرمنی میں مسلمان، دیگر اقلیتیں ’کونے میں دھکیلی‘ جا رہی ہیں
12 اکتوبر 2020
معروف جرمن مؤرخ وولفگانگ بینز کے مطابق جرمنی میں اقلیتیں خوف اور تعصب کے ذریعے ایک کونے میں دھکیلی جا رہی ہیں۔ بینز کے بقول جرمنی کو ایک ’مسیحی یہودی مغربی ملک‘ قرار دینا بھی غلط ہے، جس کا مقصد مسلمانوں سے دوری ہے۔
اشتہار
وولفگانگ بینز کی عمر اس وقت 79 برس ہے اور وہ ماضی میں جرمن دارالحکومت برلن میں سامیت دشمنی کے خلاف قائم تحقیق کے مرکز کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی میں اگر معاشرتی تبدیلیوں کا تاریخی جائزہ لیا جائے، تو یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں ایک خاص طرح کی 'لسانی بے ایمانی‘ دیکھنے میں آتی ہے۔
اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے وولفگانگ بینز نے کہا کہ جرمن معاشرے میں 'اسلام مخالف‘ اور 'مسیحی یہودی مغربی ریاست‘ جیسی اصطلاحات اس لیے استعمال میں لائی گئیں کہ سماجی طور پر مسلمانوں کے اثر و رسوخ کو محدود رکھا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ’’تاریخی حوالے سے یہ ایک طرح سے بے شرمی کی بات ہے کہ کوئی بھی شخص یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ جیسے ماضی میں مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان ریاستی سطح پر کبھی کوئی قدر مشترک رہی ہے۔‘‘
وولفگانگ بینز نے کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسیحی ریاست کی اکثریتی آبادی کے طور پر تو مسیحیوں نے دو ہزار سال تک یہودیوں کے لیے زندگی کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دہ بنانے کی کوشش کی اور اس کے لیے صلیبی جنگوں، یہودیوں کی املاک کو تباہ کرنے، ان کے قتل عام اور ان کے خاص طرح کے حقوق کی نفی کرنے جیسے اقدامات کیے۔‘‘
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
اسرائیل پر تنقید اور سامیت دشمنی میں فرق
بڑے احترام کی نظر سے دیکھنے جانے والے اور کئی کتابوں کے مصنف اس جرمن مؤرخ نے زور دے کر کہا کہ موجودہ جرمنی میں دانستہ طور پر سامیت دشمنی اور اسرائیل پر تنقید کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا، ''اگر کوئی سرکردہ جرمن سیاستدان یہ کہے کہ اسرائیل بلاجھجھک فلسطینیوں کے مکمل تباہی کا سبب بننے والی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، تو اس بیان کو سامیت دشمنی کا مظہر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ 'اسرائیل کی ریاستی حدود میں اپنے حقوق کے حوالے سے تمام شہری عملاﹰ برابر نہیں ہیں‘ یا 'اسرائیلی حکومت فلسطینی علاقوں پر قبضے اور انہیں اپنے ریاستی علاقے میں ضم کرتے ہوئے پورے خطے میں قیام امن کے حق میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھا رہی‘ تو ایسے کسی بھی بیان کو سامیت دشمن قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
اشتہار
اسلام پر تنقید کے درپردہ مقاصد
وولفگانگ بینز کے مطابق جو لوگ جرمنی میں اسلام پر تنقید کرتے ہیں، وہ ایسا اپنی درپردہ منفی سوچ کی وجہ سے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''جو لوگ ہمارے سامنے خود کو 'اسلام پر تنقید کرنے والے‘ کہہ کر اپنا کھیل کھیلتے ہیں، ان کے ذہن میں بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی سوچ ہوتی ہے۔ حالانکہ ظاہری طور پر ایسے عناصر اپنے ذہنوں میں اسلام کے خلاف کوئی بھی تعصب نہ ہونے کے دعوے کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ تو اسلام کی ایک مذہب کے طور پر مخالفت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اسلام تو ہے ہی ایسا کہ اس کے خلاف مزاحمت کی جانا چاہیے۔‘‘
مسلمانوں کے لیے دس بہترین ممالک
اس برس کے ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس‘ میں دنیا کے تہتر ممالک کا حلال معیشت، خوراک، فیشن، سفر، ادویات و کاسمیٹکس اور میڈیا کے حوالے سے جائزہ لے کر درجہ بندی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے لیے دس بہترین ممالک یہ ہیں:
تصویر: Imago/J. Jeske
۱۔ ملائیشیا
ملائیشیا اس برس بھی اس درجہ بندی میں مجموعی طور پر 121 پوائنٹس حاصل کر کے سرفہرست رہا۔ ’اسلامی معیشت‘ کے حوالے سے بھی 189 پوائنٹس کے ساتھ یہ ملک پہلے نمبر پر جب کہ حلال سفر، حلال ادویات و کاسمیٹکس کے حوالے سے کی گئی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker
۲۔ متحدہ عرب امارات
چھیاسی پوائنٹس کے ساتھ متحدہ عرب امارات مسلمانوں کے لیے دوسرا بہترین ملک قرار دیا گیا۔ ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس 2016/17‘ میں متحدہ عرب امارات ’اسلامی معیشت‘ کے حوالے سے دوسرے نمبر پر، جب کہ حلال خوراک، حلال سفر، شائستہ فیشن، اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے پہلے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/Kai-Uwe Wärner
۳۔ بحرین
اس برس کے گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں چھاسٹھ کے اسکور کے ساتھ بحرین تیسرے نمبر پر ہے۔ اسلامی معیشت کے درجے میں بھی 90 پوائنٹس کے ساتھ بحرین تیسرے نمبر پر تاہم حلال خوراک کے اعتبار سے بحرین نویں نمبر پر ہے۔ حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے بحرین تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
۴۔ سعودی عرب
سعودی عرب مجموعی طور پر تریسٹھ پوائنٹس کے ساتھ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ حلال سفر کے حوالے سے سعودی عرب دسویں نمبر پر رہا تاہم شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے اعتبار سے یہ ملک پہلے دس ممالک میں جگہ حاصل نہیں کر پایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
۵۔ عمان
سعودی عرب کا ہمسایہ ملک عمان 48 کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس برس کے ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس‘ میں پانچویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب ہی کی طرح عمان بھی شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے اعتبار سے پہلے دس ممالک میں جگہ حاصل نہیں کر پایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۶۔ پاکستان
پاکستان اس انڈیکس میں چھٹے نمبر پر ہے اور اس کا مجموعی اسکور 45 ہے۔ گزشتہ برس کے انڈیکس میں پاکستان پانچویں پوزیشن پر تھا۔ تھامسن روئٹرز کی تیار کردہ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی معیشت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حلال خوراک کے درجے میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے لیکن حلال سفر، شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے پاکستان پہلے دس ممالک میں شامل نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Koene
۷۔ کویت
خلیجی ریاست کویت اس درجہ بندی میں 44 کے مجموعی اسکور کے ساتھ پاکستان سے ایک درجہ پیچھے یعنی ساتویں نمبر پر رہا۔ اسلامی معیشت کی درجہ بندی میں 51 کے اسکور کے ساتھ کویت عمان کے ساتھ مشترکہ طور پر پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۸۔ قطر
قطر کا مجموعی اسکور 43 ہے اور وہ اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال دیگر خلیجی ممالک کی طرح قطر کی اسلامی معیشت اور حلال خوراک کے حوالے سے کارکردگی بھی اچھی رہی۔ سعودی عرب کے برعکس حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے قطر پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۹۔ اردن
عرب ملک اردن 37 پوائنٹس کے ساتھ اس برس کے گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں نویں نمبر پر ہے۔ حلال سفر اور حلال ادویات و کاسمیٹکس کے اعتبار کے اردن کی کارکردگی بہتر رہی تاہم حلال خوراک کے حوالے سے اردن بھی پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل نہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
۱۰۔ انڈونیشیا
گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں 36 پوائنٹس کے ساتھ انڈونیشیا دسویں نمبر پر ہے۔ اسلامی معیشت، حلال خوراک اور سفر کے اعتبار سے انڈونیشیا کی کارکردگی اچھی رہی۔ تاہم شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی طرح نمایاں نہیں رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry
یورپی ممالک شائستہ فیشن اور حلال تفریح میں نمایاں
گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس کے مطابق حلال میڈیا و تفریح کے درجے میں برطانیہ پانچویں، فرانس ساتویں اور جرمنی آٹھویں نمبر ہیں۔ شائستہ فیشن کے حوالے سے پہلے دس ممالک میں اٹلی پانچویں اور فرانس ساتویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Johnson
11 تصاویر1 | 11
تعصبات پیدا کیسے ہوتے ہیں؟
کسی بھی معاشرے میں منفی تبدیلیوں کے مطالعے میں یہ سوال کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں مخصوص تعصبات پیدا کیسے ہوئے؟ وولفگانگ بینز کہتے ہیں، ''کسی بھی ایسے معاشرے میں جہاں ایک خاص نسلی، مذہبی یا لسانی گروپ کو سماجی اکثریت حاصل ہو، تعصبات وجود میں آنے کا غیر جانبدارانہ مطالعہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ''میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جرمن معاشرے کے ایک حصے کے طور پر خانہ بدوشوں کی سنتی اور روما نسلوں کے باشندوں کو محدود کیوں کیا گیا ہے؟ یہی سوال مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے بھی پوچھا جانا چاہیے۔‘‘
'غلط تصویر تو سوچنے والے کے دماغ میں ہوتی ہے‘
وولفگانگ بینز نے زور دے کر کہا کہ اگر کسی معاشرے کا کوئی حصہ مذہبی یا نسلی اقلیتوں کو پسند نہیں کرتا، تو اس کی وجہ خود وہ اقلیتیں نہیں ہوتیں، ''اس ناپسندیدگی کی وجہ اور محرک وہ منفی تصویر ہوتی ہے، جو کوئی بھی انسان اپنے ذہن میں کسی اقلیت کے بارے میں بنا لیتا ہے۔‘‘
عمومی انسانی نفسیات کی وجہ سے اور اپنے ذاتی تجربات کو ہر کسی کے لیے اصول بنا دینے کی شعوری یا لاشعوری خواہش کی وضاحت کرتے ہوئے وولفگانگ بینز نے کہا، ''یہ مثال آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ میں کہوں: آئرلینڈ کے تمام باشندوں کے بال سرخ ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ میں سرخ بالوں والے ایک آئرش باشندے کو جانتا ہوں۔‘‘
م م / ش ج (ڈی پی اے)
يورپی مسلمانوں کے بارے ميں عام غلط فہمياں اور حقائق
يورپ ميں کئی سياسی دھڑے اکثر يہ سوال اٹھاتے ہيں کہ کيا اسلام مغربی طرز کی جمہوريت اور زندگی ميں پنپ سکتا ہے؟ ڈی ڈبليو کی اس گيلری ميں جانيے يورپی مسلمانوں کے حوالے سے پائی جانے والی چند غلط فہمياں اور ان کے پيچھے حقائق۔
تصویر: picture-alliance/Godong/Robert Harding
مسلمان مقامی یورپی زبانیں کس حد تک سيکھتے ہيں؟
ہجرت کر کے جرمنی آنے والے بالغوں ميں ہر پانچ ميں سے ايک شخص جرمن زبان پر مکمل عبور رکھتا ہے جبکہ جرمنی ميں پيدا ہونے والے پچھتر فيصد مسلمان بچے جرمن زبان کے ساتھ پرورش پاتے ہيں۔ يورپ کے بيشتر ممالک ميں ہر نسل کے ساتھ زبان سیکھنے کی صلاحيت بہتر ہونے کا رجحان ديکھا گيا ہے۔ جرمنی ميں چھياليس فيصد مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہی زبان ان کی قومی زبان ہے، جس ميں وہ روز مرہ کی گفتگو کرتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسلمان غير مسلم افراد کے ساتھ کيسے تعلقات رکھتے ہيں؟
سوئٹزرلينڈ ميں ستاسی فيصد، فرانس اور جرمنی ميں اٹھتہر فيصد اور برطانيہ ميں اڑسٹھ، آسٹريا ميں باسٹھ فيصد مسلمانوں کا دعوی ہے کہ وہ اپنے فارغ اوقات ميں غير مسلم افراد کے ساتھ روابط رکھتے ہيں۔ انضمام کے حوالے سے رکاوٹوں اور سماجی مسائل کے باوجود کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ اچھے روابط رکھنے ميں مسلمان پيش پيش ہيں اور يورپ ميں پيدا ہونے والی نسلوں ميں يہ رجحان اور بھی زيادہ واضح ہے۔
تصویر: imago/Westend61
مسلمان خود کو کس حد تک يورپی معاشروں کا حصہ سمجھتے ہيں؟
فرانس ميں چھيانوے فيصد مسلمان خود کو اس ملک کا حصہ سمجھتے ہيں جبکہ جرمنی ميں بھی ايسے افراد کی تعداد لگ بھگ يہی ہے۔ سوئٹزرلينڈ ميں اٹھانوے فيصد لوگ خود کو سوئس معاشرے کا حصہ مانتے ہيں۔ دوسری جانب يہ بات حيران کن ہے کہ مذہبی طور پر مقابلتاً دوستانہ پاليسيوں کے باوجود برطانيہ ميں ايسا محسوس کرنے والوں کی تعداد اناسی فيصد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Neubauer
يورپی مسلمانوں کی زندگيوں ميں مذہب کتنا اہم ہے؟
يورپ ميں مقيم مسلمان عموماً مذہب کا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑتے۔ برطانيہ ميں چونسٹھ فيصد مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو مذہبی تصور کرتے ہيں۔ اس کا مطلب وہ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہيں اور جمعے کی نماز باجماعت پڑھتے ہيں۔ آسٹريا ميں ايسے مذہبی مسمانوں کا تناسب بياليس فيصد، جرمنی ميں انتاليس فيصد، فرانس ميں تينتيس فيصد اور سوئٹزرلينڈ ميں چھبيس فيصد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Dean
يورپ ميں مقيم کتنے مسلمان اعلی تعليم حاصل کرتے ہيں؟
اعداد و شمار کے مطابق جرمنی ميں موجود مسلمانوں کی چھتيس فيصد تعداد سترہ برس کی عمر سے پہلے ہی تعليم ترک کر ديتی ہے، يعنی وہ اعلی تعليم حاصل نہيں کرتے۔ آسٹريا ميں ايسے مسلمانوں کی تعداد اور بھی زيادہ یعنی انتاليس فيصد ہے۔ اس کے برعکس فرانس ميں ہر دس مسلمان خاندانوں ميں سے صرف ايک کا بچہ سترہ برس کی عمر کے بعد بھی تعلیم چھوڑ دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
مسلمانوں کی يورپی روزگار کی منڈی ميں شراکت کتنی ہے؟
سن 2010 سے قبل جرمنی ہجرت کرنے والے ساٹھ فيصد مسلمان ملازمت کر رہے ہيں جبکہ بيس فيصد پارٹ ٹائم ملازمتيں کر رہے ہيں۔ جرمنی کی روزگار کی منڈی ميں غير مسلموں کی شراکت بھی ايسی ہی ہے۔ جرمنی ميں بہتر مواقع اور ملازمين کی مانگ کے سبب مسلمان مقابلتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہيں۔ اس کے برعکس فرانسيسی مسلمانوں ميں بے روزگاری کی شرح چودہ فيصد ہے جبکہ غير ملسم افراد ميں يہ تناسب صرف آٹھ فيصد بنتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/U.Baumgarten
مسلمانوں کو کس حد تک مزاحمت کا سامنا ہے؟
آسٹريا ميں ہر چار ميں سے ايک شہری کسی مسلمان کو اپنا پڑوسی بنانا نہیں چاہتا۔ جرمنی ميں بھی انيس فيصد لوگ ايسی ہی رائے رکھتے ہيں۔ برطانيہ ميں اکيس فيصد غير ملسم لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی مسلمان کے گھر کے برابر ميں رہنا پسند نہيں کريں گے جبکہ سوئٹزرلينڈ ميں سترہ اور فرانس ميں چودہ فيصد لوگوں کا بھی ايسا ہی ماننا ہے۔ مسلمانوں کا شمار ان گروپوں ميں ہوتا ہے، جنہيں کئی طرح کی مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: AP
’يورپ ميں مسلمان، معاشرے ميں ضم مگر تسليم نہيں‘
اس پکچر گيلری کے ليے معلومات و اعداد و شمار برٹيلسمين فاؤنڈيشن کی حال ہی ميں جاری کردہ ايک رپورٹ سے ليے گئے ہيں۔ یہ رپورٹ سوئٹزرلينڈ، جرمنی، فرانس اور برطانيہ ميں ہزاروں لوگوں سے انٹرويو لینے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔