جرمنی میں مشتبہ امریکی جاسوس گرفتار
5 جولائی 2014خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے وزارتِ خارجہ کے ایک بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ برلن میں وزارتِ خارجہ کے اسٹیٹ سیکرٹری اشٹیفان اشٹائن لائن نے ایمرسن سے معاملے کی ’فوری وضاحت‘ کی درخواست کی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق جرمنی کو شبہ ہے کہ اس کی ایک انٹیلیجنس ایجنسی کا ایک ملازم گزشتہ کئی سالوں سے خفیہ معلومات امریکا کو دے رہا تھا۔
اکتیس سالہ ایک جرمن شہری کی جاسوسی کے الزامات پر گرفتاری کے بارے میں جمعرات کو بتایا گیا تاہم جمعے کو یہ گرفتاری اس وقت بڑی بات کے طور پر سامنے آئی جب اسے امریکا کی جانب سے جاسوسی سے جوڑا گیا۔
ڈی پی اے کے مطابق مشتبہ جاسوس سے امریکا کا تعلق ثابت ہو گیا تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑا سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔
جرمن ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی غیر مصدقہ خبروں کے مطابق مشتبہ جاسوس جرمنی کی غیرملکی انٹیلجنس ایجنسی بی این ڈی میں درمیانے درجے کا ایک ٹیکنیشن ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ ایک امریکی ایجنٹ کو نقد رقوم کے بدلے میں جرمن خفیہ دستاویزات کی ڈیجیٹل کاپیاں فراہم کرتا رہا ہے۔
تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفین زائبرٹ کا کہنا ہے: ’’میں اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کروں گا کہ یہ معاملہ کونسی اینٹیلیجنس ایجنسی کے بارے میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’چانسلر کو اس معاملے کے بارے میں کل (جمعرات کو) پتہ چلا ہے۔‘‘
زائبرٹ نے بتایا کہ میرکل نے اسی روز امریکی صدر باراک اوباما سے ٹیلی فون پر بات کی۔ تاہم انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ آیا جرمن چانسلر نے امریکی صدر سے مشتبہ جاسوس کی گرفتاری کا تذکرہ کیا یا نہیں۔
خیال رہے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی جانب سے شہریوں اور سیاسی رہنماؤں کی جاسوسی جرمنی میں پہلے ہی ایک تنازعہ بنی ہوئی ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل کے فون کی نگرانی کی باتوں نے بھی واشنگٹن اور برلن حکومتوں کے خوشگوار تعلقات کو دھچکا لگایا۔
گزشتہ برس اکتوبر میں جرمنی کے اخبار بِلڈ اور میگزین ڈیر اشپیگل نے این ایس اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے عام کی گئی خفیہ دستاویزات کےحوالے سے یہ رپورٹ دی تھی کہ این ایس اے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی کرتی رہی ہے۔