1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ’مطمئن‘ تارکین وطن، سالانہ رپورٹ جاری

عاطف توقیر17 دسمبر 2013

جرمنی میں ’ہیپینس اٹلس 2013‘ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس کے مطابق جرمنی میں موجود وہ تارکین وطن جوجرمن بول سکتے ہیں، بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ تاہم بعض ماہرین اس رپورٹ کے نتائج سے متفق دکھائی نہیں دیتے۔

تصویر: DW/Aygül Cizmecioglu

خوشی ہے کیا اور خوشی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے، ان سوالات کے جوابات اتنے آسان نہیں۔ خوشی کو عام لفظوں میں یوں بیان کر دیا جاتا ہے کہ کوئی شخص کتنا اطمینان محسوس کر رہا ہے، کیوں کے ایک حد تک اس مظہر کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ جرمنی میں یہ سروے ڈوئچے پوسٹ کی ایماء پر شروع کیا گیا، جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ جرمنی میں موجود تارکین وطن کس حد تک اپنی زندگیوں سے مطمئن ہیں۔ اس سروے کے نتائج حیران کن تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں بسنے والے تارکین وطن اپنی زندگیوں سے خاصے مطمئن ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایسے تارکین وطن جو کسی حد تک جرمن زبان پر عبور رکھتے ہیں، اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بہتر اور بہت بہتر زندگی کے حامل تارکین وطن کی تعداد 49 فیصد ہے جب کہ اس کے مقابلے میں جرمن باشندوں کا تناسب 45 فیصد ہے۔

گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے عارف اؤنیل اس رپورٹ میں تارکین وطن کے معیار زندگی کی بہتری کے حوالے سے سامنے آنے والے نتائج سے حیران نہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’ہجرت ایک صحت بخش اور اچھا اقدام ہو سکتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ نقل مکانی کے درپردہ حقائق کیا ہیں اور کس صورت حال میں کسی شخص نے ہجرت کی۔ زیادہ تر افراد کے لیے نقل مکانی کی وجہ زندگی بچانا ہوتی ہے اور جرمنی پہنچ کر یہ لوگ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں، جو ان کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔‘

اؤنیل خود بھی ترک نژاد ہیں اور وہ اس وقت سوشل سائیکیٹرک کمپیٹنس سینٹر مائیگریشن کے ڈائریکٹر ہیں۔ اس ادارے کا مقصد کولون کے علاقے میں مقیم تارکین وطن کی ذہنی صحت کی بہتری کے لیے تجاویز اور اقدامات پر کام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی پارلیمان کے رکن بھی ہیں۔

تارکین وطن کی دوسری نسل معاشرتی دھارے میں بہتر انضمام کی حامل ہےتصویر: DW/B. Schröder

تارکین وطن کے اطمینان کے حوالے سے تحقیق کرنے والے جنوری ڈیلہے بھی ان سے متفق ہیں، ’زیادہ تر لوگوں کے لیے اپنے اپنے ملکوں کے مقابلے میں جرمنی میں زندگی پھر بھی بہتر ہے۔‘

ان کا تاہم کہنا ہے کہ اس کے باوجود تارکین وطن کو جرمنی میں متعدد مسائل کا سامنا ہے، جن میں معاشرتی تفریق جیسے مسائل سامنے ہیں، جن سے بہتر انداز سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق جرمنی میں تارکین وطن کے اطمینان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ معاشرتی عدم مساوات ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تارکین وطن کی تقریبا پچاس فیصد تعداد یہ سمجھتی ہے کہ انہیں ان کے غیر مقامی ہونے کی وجہ سے کبھی نہ کبھی غیر مناسب انداز سے رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ترک نژاد تارکین وطن کو خصوصا مسائل کا سامنا ہے۔

بریمن کی یعقوبز یونیورسٹی میں عمرانیات کے استاد ڈیلہے کے مطابق کوئی شخص اپنی زندگی سے کتنا مطمئن ہے، یہ جاننا اتنا آسان نہیں۔ ان کے مطابق ایسا صرف اسی صورت میں جانچا جا سکتا ہے، جب یہ معلوم ہو کہ کیا کسی شخص کو بہتر معیار زندگی کے لیے درکار حالات دستیاب ہیں یا نہیں، یا کسی شخص کو معاشرتی طور پر کس حد تک اپنا سمجھا جاتا ہے اور محبت کی جاتی ہے جب کہ اس میں کسی شخص کی تنخواہ اور معیار زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر رابطوں کو دیکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جن کا معیار زندگی بہتر ہو اور ساتھ ہی معاشرتی سطح پر انہیں اپنایا جائے، عموما اپنی زندگیوں سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے رپورٹ کے نتائج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عموما تارکین وطن کی پہلی نسل اپنی زندگیوں سے زیادہ مطمئن ہوتی ہے جب کہ دوسری نسل معاشرے میں بہتر انضمام کی حامل ہوتی ہے، اس لیے یہ کہنا اتنا آسان نہیں کی جرمنی میں تمام تارکین وطن مطمئن زندگی کے حامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں