جرمنی میں مقبول ہوتی مہاجرین مخالف سیاسی جماعتیں
10 اکتوبر 2015جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے لاکھوں کی تعداد میں آنے والے پناہ گزینوں کے لیے جرمنی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ ابتدا میں میرکل کے اس موقف پر انہیں عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ تاہم غیر ملکیوں سے نفرت رکھنے والے لوگوں کی جانب سے ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا جنہوں نے انگیلا میرکل کو مہاجرین دوست پالیسی اپنانے پر’غدار‘ اور ’جرمن عوام کی مجرم‘ قرار دیا۔ غیر ملکیوں کے خلاف نفرت اور غصہ خاص طور پر گزشتہ برس جرمنی میں شروع ہونے والی اسلام مخالف تحریک پیگیڈا کے جلوسوں میں سب نمایاں دکھائی دیا۔
گزشتہ ہفتے ڈریسڈن میں ہونے والے پیگیڈا کے ایک بڑے مظاہرے میں ایک بینر کے مندرجات کچھ یوں تھے: ’میرکل جرمن نسل کے خاتمے کی کوشش کی مجرم ہیں‘۔
جرمنی کے صوبے سیکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن میں پیگیڈا کی بنیاد گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے ہی میں رکھی گئی تھی۔
مظاہرے میں شامل تقریباﹰ نو ہزار لوگوں نے جھنڈے لہراتے ہوئے پیگیڈا کے شریک بانی بیالیس سالہ لُٹس باخ مان کو خوش آمدید کہا۔ باخ مان پر کچھ عرصہ قبل مہاجرین کو ’جانور‘، ’کچرا‘ اور ’گندگی‘ جیسے الفاظ سے پکارنے پر نسل پرستی اور مظاہرین کو اکسانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ باخ مان گزشتہ سال پچیس ہزار کی تعداد تک لوگوں کو سڑکوں پر لے آنے میں کامیاب رہے تھے۔ تاہم رواں برس جنوری میں ان کی تحریک کی بڑھتی مقبولیت اس وقت دم توڑ گئی تھی جب انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ایسی تصویر پوسٹ کی جس میں وہ ہٹلر کی مونچھوں اور بالوں کا اسٹائل بنائے ہوئے تھے۔
سیاسی فائدہ اٹھانے کی خواہش مند سیاسی جماعتوں کی فہرست میں ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی’ (اے ایف ڈی) نامی سیاسی جماعت بھی شامل ہے۔ یہ جماعت کبھی یورپی یونین مخالف سیاست کرنے کے حوالے سے جانی جاتی تھی۔ تاہم پارٹی کی داخلی تقسیم کے بعد سے یہ جماعت بھی دائیں بازو کی سیاست کرنے لگی تھی۔
اے ایف ڈی کے موجودہ رہنما فراؤکے پیٹری نے جمعے کے روز مطالبہ کیا تھا کہ جرمنی میں پناہ گزینوں کی آمد پر ’فوری پابندی‘ لگائی جائے۔ پارٹی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے خلاف ’انسانی اسمگلنگ‘ کے الزام میں فوج داری مقدمہ درج کروائے گی۔ حالیہ جائزے کے مطابق اے ایف ڈی کی مقبولیت سات فیصد تک پہنچ چکی ہے جب کہ ملکی پارلیمان میں منتخب ہونے کے لیے کم از کم پانچ فیصد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
فرانس، برطانیہ اور آسٹریا کے برعکس اب تک جرمنی میں مہاجرین مخالف سیاسی جماعتیں ملکی پارلیمان میں نمائندگی حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ تجربہ کار نیلا وسمان کے مطابق زیادہ تر جرمن عوام کے لیے نازی دور کے تاریک ماضی کو یاد رکھتے ہوئے اب بھی انتہائی دائیں بازو کی سیاست کو قبول کرنا بہت مشکل ہے۔
جرمنی میں آئندہ قومی انتخابات 2017 میں ہونے ہیں تاہم اگلے برس جرمنی کے پانچ صوبوں میں اہم ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ پچھلی بار انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو نمایاں کامیابی انیس سو نوے کی دہائی میں حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت بھی جرمنی کو جنگ زدہ سابق یوگوسلاویہ سے آنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد کا سامنا تھا۔