'جرمنی میں مقیم نصف ملین مہاجرین نفسیاتی مسائل کا شکار‘
1 نومبر 2018
ایک تازہ جائزے کے مطابق جرمنی میں مقیم تقریبا پچاس فیصد مہاجرین نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سروے میں شامل قریب پچھہتر فیصد تارکین وطن نے بذات خود ذہنی صدمات کا سامنا کیا ہے۔
اشتہار
مہاجرین کے حوالے سے باخبر رکھنے والے یورپی ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق جرمن پبلک انشورنس کمپنی اے او کے نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہر چار میں سے تین افغان، شامی اور عراقی مہاجرین ذہنی صدموں سے دو چار رہے ہیں جن میں سے اڑتالیس فیصد اب بھی مہاجرت کے خطرناک اسباب کے سبب ان کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انٹرویو کیے گئے ساٹھ فیصد سے زائد تارکین وطن نے کہا کہ ان کے ذہنی مسائل کا تعلق جنگ اور تنازعات کی صورت حال سے متعلق تھا جبکہ چالیس فیصد سے زائد نے کہا کہ وہ جنگوں میں حملوں کا براہ راست نشانہ بنے۔
انہی پناہ گزینوں میں سے ایک تہائی نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے کسی عزیز کے قتل یا اغوا کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ ہر پانچ میں سے ایک تارک وطن کے مطابق اسے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ مذکورہ سروے میں حصہ لینے والے چھ فیصد کا کہنا تھا کہ وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔
اس مطالعے میں شامل تارکین وطن میں سے اٹھاون فیصد کے مطابق وہ ایک سے زیادہ مرتبہ صدموں سے دو چار رہے ہیں۔ صحت کے امور سے متعلق جرمن انشورنس پبلک کمپنی نے اس سروے میں افغانستان، شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین سے انٹرویو کیے تھے۔ اس سروے کا مقصد جرمنی میں رہنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی صحت کے معاملات کے حوالے سے ایک جائزہ رپورٹ مرتب کرنا تھا۔
اس تحقیقی جائزے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ سروے کے نتائج جرمنی میں رہنے والے چھ لاکھ مہاجرین کے ذہنی و نفسیاتی مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں صرف سترہ ہزار پانچ سو پناہ گزنوں نے نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے پیشہ ورانہ ماہر نفسیات ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی ہیں۔
اے او کے کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مہاجرین کو جنگ اور تنازعات کے نتیجے میں لاحق ہونے والے نفسیاتی امراض سے نبرد آزما ہونے کے لیے مزید وسائل درکار ہیں۔ اے او کے نے کہا ہے کہ مناسب طبی امداد بہم پہنچانا ایک انسانی فریضہ بھی ہے۔
تاہم یہ اب بھی واضح نہیں کہ کیا جرمنی میں مقیم مہاجرین اور تارکین وطن کو صحت کے مسائل کم ہیں یا پھر وہ ڈاکٹروں سے مشاورت کرنے ہی شاذ ونادر جاتے ہیں۔ اس حوالے سے جرمن نیوز ایجنسی کے این اے کا البتہ کہنا ہے کہ جرمن زبان سے ناواقفیت بھی ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔
ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔