جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سرفہرست
شمشیر حیدر
31 مئی 2018
ایک تازہ تحقیق کے مطابق سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے ہر چوتھا فرد اب برسر روزگار ہے۔ ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سرفہرست ہیں۔
اشتہار
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
جرمنی میں روزگار کی منڈی اور ملازمتوں سے متعلق تحقیق کے ادارے (آئی اے بی) کی تیار کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2015 میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے ایک چوتھائی افراد جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
وفاقی دفتر روزگار کے اس ذیلی ادارے نے اپنی تحقیق میں یہ بھی بتایا ہے کہ مہاجرین اسی رفتار سے روزگار کی ملکی منڈی تک رسائی حاصل کرتے رہے تو اگلے پانچ برسوں میں نصف ملین سے زائد تارکین وطن برسر روزگار ہوں گے۔
ایک مقامی جرمن اخبار ’رائنشے پوسٹ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے آئی اے بی میں مہاجرین اور روزگار سے متعلق تحقیق کے سربراہ ہیربرٹ برؤکر نے بتایا کہ رواں برس کے اختتام تک اوسطا ساڑھے آٹھ ہزار تا دس ہزار تارکین وطن ہر مہینے ملازمتیں حاصل کر لیں گے۔
پاکستانی تارکین وطن سرفہرست
تحقیقی رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن میں روزگار کے حصول کی شرح بھی مختلف رہی۔ روزگار کے حصول کی سب سے زیادہ شرح پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن میں دیکھی گئی۔ سن 2015 کے بعد سے پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے پاکستانی تارکین وطن میں سے چالیس فیصد افراد رواں برس مارچ کے اختتام تک جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے تھے۔
پاکستانی تارکین وطن کے علاوہ ایران اور نائجیریا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین بھی جرمنی میں ملازمتوں کے حصول کی شرح میں نمایاں رہے۔
افغان، عراقی اور شامی مہاجرین کی جانب سے ملازمتوں کی درخواستوں کی تعداد تو زیادہ رہی لیکن کامیابی کی شرح ایرانی اور پاکستانی تارکین وطن کی نسبت نمایاں طور پر کم رہی۔
یورپ آنے کے قانونی طریقے
00:52
صفائی ستھرائی، سکیورٹی اور مال برداری
آئی اے بی کے مطابق تارکین وطن نے زیادہ تر ملازمتیں ایسے شعبوں میں حاصل کیں جہاں جرمن زبان سے واقفیت کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی۔ گیارہ فیصد تارکین وطن کو سروسز سے متعلق کمپنیوں میں صفائی ستھرائی، سکیورٹی، مال برداری اور اشیا کی نقل و حرکت جیسے کام ملے۔ ہیربرٹ برؤکر کا کہنا تھا کہ اس امر کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت اس قسم کے کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔
تاہم جرمنی کے صنعتی شعبے میں ملازمتیں حاصل کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد نہایت کم رہی۔ برؤکر کے مطابق اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ زیادہ تر پناہ گزین جرمن زبان بھی نہیں جانتے اور نہ ہی وہ ہنرمند ہیں۔
حکومتی سماجی مراعات کے حصول میں بھی اضافہ
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے سماجی امداد حاصل کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ہیربرٹ برؤکر نے بتایا کہ جرمنی میں تسلیم شدہ حیثیت کے حامل مہاجرین کو جرمن زبان اور سماجی انضمام کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں، جن کی تکمیل کے بعد وہ فوری طور پر روزگار حاصل نہیں کر پاتے۔ اسی وجہ سے انہیں حکومتی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
روزگار کی منڈی اور ملازمتوں سے متعلق تحقیق کے اس جرمن ادارے کا کہنا ہے کہ سماجی مراعات حاصل کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس اب تک بارہ فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔
نئے تارکین وطن کی تعداد مسلسل کم
سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہوا تھا اور اس برس آٹھ لاکھ 90 ہزار تارکین وطن پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے تھے۔ اس سے اگلے برس سن 2016 میں یہ تعداد کم ہو کر دو لاکھ اسی ہزار ہو گئی تھی جب کہ گزشتہ برس مجموعی طور پر ایک لاکھ 87 ہزار مہاجرین سیاسی پناہ کے حصول کے لیے جرمنی پہنچے تھے۔ رواں برس کے دوران اب تک جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد گزشتہ برسوں کے پہلے پانچ ماہ کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔