1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں ملک گیر ٹرانسپورٹ ہڑتال شروع

27 مارچ 2023

اتواراور پیر کی درمیانی شب سے شروع ہونے والی پبلک سیکٹرکی یہ ہڑتالیں بنیادی طور پر پبلک ٹرانسپورٹ پر مرکوز ہیں۔ ان ہڑتالوں کےتحت پیر کو جرمنی میں تقریباً تمام بسوں، ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کی آمدورفت کا سلسلہ بند رہےگا۔

Warnstreik Luftverkehr München
تصویر: Angelika Warmuth/dpa/picture alliance

جرمنی میں پیر کی آدھی رات کو کئی ٹریڈ یونینوں کے زیر اہتمام ملک گیر انتباہی ہڑتال کا باضابطہ طور پر آغاز ہو گیا تھا۔ اس  ہڑتال کی تیاریوں نے پہلے ہی ہفتے گزشتہ ویک اینڈ پر معمولات زندگی میں بڑی رکاوٹیں پیدا کر دی تھیں اور پیر کے روز تقریباً تمام ہوائی جہاز، ٹرینیں اور بسیں نہیں چل رہی ہیں۔ یہ ہڑتال جرمنی میں ایک طویل عرصے سے جاری تنخواہ میں اضافے کے مطالبے کے تنازعے کا حصہ ہے۔

ٹرانسپورٹ کے ذرائع کی اس ہڑتال کے نتیجے میں پیر کو سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے ٹریفک جام کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ عوام کو اپنے اپنے کاموں اور بچوں کو اسکولوں اور کالجوں میں وقت پر پہنچنے میں بہت زیادہ مشکلات اور ہر طرح کی سرگرمیوں میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تمام پروازیں گراؤنڈ

دارالحکومت کے 'برلن برانڈن بُرگ ایئرپورٹ‘ کے سوا تقریباً تمام بڑے جرمن ہوائی اڈے ہڑتال سے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔  ملک بھر میں، تقریباً 4 لاکھ مسافروں کو تاخیر یا منسوخی کا سامنا کرنا پڑا۔

ہوائی جہازوں کے سب سے بڑے مرکز، فرینکفرٹ میں، تمام آنے والی اور باہر جانے والی پروازیں پیر کو پورے دن کے لیے منسوخ کر دی گئیں۔  فرینکفرٹ ایئر کے تمام شالٹرز پر طویل فاصلے کی پروازوں کی پورے دن کی تاخیر کا بورڈ لگا دیا گیا۔

اس دوران میونخ بین الاقوامی ہوائی اڈے نے ہڑتال اور اس کے اثرات کے پیش نظر اتوار کو پہلے ہی پروازیں روک دی تھیں۔ میونخ میں پیر کو بھی تمام مسافر پروازیں بند رہیں۔

محض برلن کا 'بی ای آر‘  ایئرپورٹ تھا جو ہڑتال سے متاثر نہیں ہوا۔ اس کی  آمد اور روانگی کے آن لائن بورڈز پیر کی صبح سے ہی نسبتاً معمول کے مطابق لگ رہے تھے  لیکن جرمنی میں اندرون ملک پروازیں ہڑتالوں کے سبب بند پڑی تھیں۔

ہننور کا ریلوے اسٹیشنتصویر: Moritz Frankenberg/dpa/picture alliance

طویل فاصلے والی اور علاقائی ٹرینیں بھی متاثر

اس ہڑتال سے جرمنی کا ریل کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو گیا۔ ہڑتال نے طویل فاصلے والی ٹرینوں اور مقامی پبلک ٹرانسپورٹ سبھی متاثر ہوئے ہیں۔

ای وی جی یونین کے مطابق 30,000 سے زیادہ ریلوے ملازمین پیر کو ہڑتال میں شامل ہوئے۔

ای وی جی مذاکراتی کمیٹی کے رکن کرسٹیان لوروخ نے کہا، ''ہڑتال پر آمادگی بہت زیادہ ہے، اور آجروں کی طرف سے روکے جانے پر کارکنوں میں غصہ بھی انتہا سے زیادہ ہے۔‘‘ ان کا کہننا تھا،''ہم آج  ہڑتال کر رہے ہیں کیونکہ اجتماعی سودے بازی میں، بہت سے کارکنوں کے لیے سخت مالی حالات کے باوجود، ہمیں کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی گئی جو سنجیدہ مذاکرات کے لائق ہو۔‘‘

قومی ریل آپریٹر 'ڈوئچے بان‘  نے پیر کے طے شدہ ملک گیر ہڑتال کے ضمن میں  گزشتہ ہفتے ہی تمام طویل فاصلے طے کرنے والی ریل سروس کو بند کرنے کا غیر معمولی اعلان کر دیا تھا۔

 جرمن ریلوے ادارہ ڈوئچے باہن اکثر ان خدمات کو ترجیح دینے کی کوشش کرتا ہے، جن کا تعلق کئی بین الاقوامی سرحدیں عبور کرنے والے سفر سے ہوتا ہے۔

میونخ ایئرپورٹ پر مسافروں کی مایوسی کی انتہاتصویر: Peter Kneffel/dpa/picture alliance

ڈوئچے باہن نے علاقائی ریل خدمات کو بھی بڑے پیمانے پر کم کرنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ عوامی تعطیل کے دنوں میں اور ہنگامی شیڈول پر کام کرنا بھی ممکن نہیں رہ جائے گا۔ پیر کی ہڑتال میں جرمن صوبے باڈن ووٹمبرگ، حسے، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا، رائن لینڈ پلاٹینیٹ، سکسنی اور بویریا کی مقامی پلک ٹرانسپورٹ جیسے کہ بسیں، ٹرام یا زیر زمین سروس کو بھی روک دیا گیا۔ اس کے نتیج۔ کیں سڑکوں پر غیر معمولی ٹریفک سے بھی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ زیادہ تر باشندوں کے پاس کار یا بائی سائیکل کا استعمال ہی اس وقت ممکن رہ گیا ہے۔

مذاکرات کا تیسرا دور

جرمنی کی ٹریڈ یونیوں کی سب سے بڑی انجمن ورڈی جو رکنیت کے اعتبار سے ملک کی دوسری بڑی مزدور یونین ہے اور ای وی جی کی طرف سے اس ہڑتال میں مکمل ہم آہنگی کے مظاہرے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

دونوں یونینوں کی اس ہفتے پبلک سیکٹر کے آجروں کے ساتھ بات چیت زیر التواء ہے۔ ورڈی کے معاملے میں، جرمن سول سروس فیڈریشن (DBB) یونین کے ساتھ وفاقی حکومت اور میونسپلٹیز کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کا ایک نیا دور پیر کو پوٹسڈیم میں شروع ہوا ہے۔

میونخ میں پیر سے پہلے ہی ہڑتال کا آغاز ہو گیا تھاتصویر: Sven Hoppe/dpa/picture alliance

ورڈی کے ترجمان فرانک ویرنیکے کے مطابق،''ٹرانسپورٹ سیکٹر میں ہڑتال کے ساتھ سااتھ آجروں پر ایک بار پھر یہ واضح کر دیا جانا چاہیے کہ ملازمین ہمارے مطالبات کے ساتھ پوری طرح متفق ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ ان ہڑتالوں کا سبب مزدور یونینوں کی طرف سے تنخواہوں میں ساڑھے دس فیصد اضافے کا مطالبہ ہے جسے حکومت ابھی تک ماننے سے انکار کر رہی ہے۔

ک م/ ع ت ( ہالم مارک)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں