جرمنی کو جنوبی امریکا سے آنے والی ’کوکین کے سیلاب‘ کا سامنا
مقبول ملک لوئس سینڈرز
27 دسمبر 2017
جرمنی میں جرائم کی روک تھام کے نگران وفاقی ادارے کے حکام نے عنقریب ختم ہونے والے سال 2017 میں مجموعی طور پر ملک میں اسمگل کی گئی کروڑوں ڈالر مالیت کی سات میٹرک ٹن سے زائد کوکین ضبط کی، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔
اشتہار
جرمنی میں جرائم کی روک تھام کے وفاقی ادارے کا نام بی کے اے (BKA) ہے، جس کے اہلکاروں نے بتایا کہ یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک کو اس وقت جنوبی امریکی ممالک سے اسمگل کی جانے والی ’کوکین کے ایک سیلاب‘ کا سامنا ہے۔
بی کے اے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے جرمن نشریاتی ادارے این ڈی آر کو بتایا کہ 2017ء میں اب تک جرمن حکام نے ملک کے مختلف شہروں سے جتنی زیادہ مقدار میں اسمگل شدہ کوکین اپنے قبضے میں لی ہے، وہ حیران کن حد تک زیادہ اور ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سال جرمنی میں اسمگل کی گئی سات میٹرک ٹن سے زائد کوکین ضبط کی گئی، جس کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں قیمت کروڑوں ڈالر بنتی ہے۔
حکام کے مطابق کوکین کی اسمگلنگ کی کوششوں میں بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ اضافہ اس لیے بھی دیکھنے میں آیا کہ خاص طور پر جنوبی امریکی ممالک میں جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے اس انتہائی نشہ آور مادے کی تیاری میں پیداوار کے جدید طریقوں کی وجہ سے بہت اضافہ ہوا ہے۔
انسداد منشیات کے جرمن ماہرین کے بقول گزشتہ برس دنیا بھر میں کوکین کی مجموعی پیداوار 582 میٹرک ٹن رہی تھی، جو اس سال مزید اضافے کے ساتھ اور بھی زیادہ ہو گئی۔
جرمنی کے فیڈرل کریمینل آفس (BKA) کےانسداد منشیات کے شعبے کے سربراہ کرسٹیان ہوپے نے بتایا کہ ملک میں کوکین کی اسمگلنگ کے خلاف سال رواں میں جتنی بھی کامیاب کارروائیاں کی گئیں، ان میں سے سب سے بڑی کارروائی جولائی میں شمالی شہر ہیمبرگ کی بندرگاہ پر کی گئی تھی، جس دوران 3.8 میٹرک ٹن کوکین قبضے میں لے لی گئی۔ ہیمبرگ کا شمار بحری مال برداری کے لیے استعمال ہونے والی یورپ کی سب سے بڑی بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔
ہوپے کے بقول منشیات کے جنوبی امریکی اسمگلروں نے جرمنی بھر میں اتنی زیادہ کوکین اسمگل کرنے کی کوشش کی کہ اسے یقینی طور پر ’کوکین کے سیلاب‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ کرسٹیان ہوپے کے مطابق، ’’منشیات کے یہ اسمگلر اس نظریے کے تحت کام کرتے ہیں کہ رسد زیادہ ہو گی، تو طلب بھی خود بخود پیدا ہو جائے گی۔‘‘ ماہرین کے مطابق یہ بات کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ آیا کوکین نشے کے عادی افراد کی طرف سے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا نشہ بن جائے گی۔
جنوبی امریکا میں یہ کوکین میکسیکو، ایکواڈور اور یوروگوئے جیسے ممالک سے بحری مال برداری کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینرز میں طرح طرح کے تجارتی سامان مثلاﹰ برآمدی کیلوں کے ساتھ چھپا کر یورپ اسمگل کی جاتی ہے۔
بی کے اے کے تفتیشی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ منشیات جرمنی میں ہیمبرگ کی بندرگاہ تک پہنچ جاتی ہیں، تو انہیں وہاں سے باہر نکلوانے کے لیے منشیات کے اسمگلر بندرگاہ کے ملازمین کو بھاری رقوم کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔
جرمنی کے علاوہ کئی دیگر یورپی ممالک کے تفتیشی ماہرین کی رائے میں یورپ میں منشیات کی اس غیر قانونی تجارت پر اٹلی اور بلقان کے خطے کی ریاستوں کے جرائم پیشہ گروہ چھائے ہوئے ہیں۔
لاطینی امریکا کے کھلے زخم
کوکین، مافیا، جرائم: لاطینی امریکا منشیات اور اس کے خلاف جاری جنگ سے متاثر ہے۔ جرائم پیشہ گروہ اربوں کما رہے ہیں اور ان کا اثر و رسوخ بھی بہت بڑھ چکا ہے جبکہ معاشرہ تشدد سے ہل کر رہ گیا ہے۔
تصویر: Getty Images
منشیات کے عادی
پولیس حکام ریو ڈی جنیرو میں کریک (کوکین کی ایک قسم) کی عادی ایک حاملہ عورت کو گرفتار کر رہے ہیں۔ امریکا میں وباء کی صورت اختیار کرنے کے بیس برس بعد یہ منشیات برازیل میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: AP
خدائی شہر میں خدا کے رحم و کرم پر
برازیل کے فلم ساز فرنانڈو ماریلس کی فلم ’’خدائی شہر‘‘ منشیات سے منسلک چھپی ہوئی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس فلم میں ریو کی کچی آبادی کا ایک دس سالہ لڑکا شہر کے خطرناک ترین کوکین مافیا کا سربراہ بنتا ہے۔ اس فلم میں حکومتی دوہری پالیسیوں پر سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔
تصویر: CineLatino
کوکین اور چائلڈ لیبر
پیرو میں بھی غریب خاندانوں کے بچوں کا بچپن وقت سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ دس سالہ بچہ بھی کوکا نامی پودوں سے پتے اتارنے کا کام کرتا ہے۔ پیرو کا ایمیزون جنگل گزشتہ کئی برسوں سے کوکین کی پیداوار کے لحاظ سے جنوبی امریکا میں سر فہرست ہے۔ کوکین کا 76 فیصد حصہ پیرو کے ایمیزون جنگل سے آتا ہے۔
تصویر: AP
جنگل میں چھاپے
پیرو کے انسداد منشیات یونٹ کے پولیس اہلکار ایمیزون کے قریبی علاقے میں کوکا پودوں کے ایک کھیت کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہاں منشیات کے زیادہ تر کاروبار کی سرپرستی ایک مقامی گوریلا گروپ کرتا ہے۔ پیرو کی یہ مارکسی زیر زمین تحریک اسی کی دہائی سے حکومت مخالف کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گوریلا گروپ اور منشیات کا کاروبار
کولمبیا میں منشیات کا زیادہ تر کاروبار فارک باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ بگوٹا حکومت اس وقت باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔ پورٹو کونکورڈیا میں 25 جنوری 2012ء کے چھاپے کے دوران 17 لیبارٹریاں تباہ کر دی گئی تھیں جبکہ دو ہوائی جہاز، بائیس کشتیاں اور 692 کلو گرام کوکا پیسٹ ضبط کر لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سب کا باس ’’ڈان پابلو‘‘
کولمبیا کے کاروباری حضرات اب بھی اپنی مصنوعات کی مشہوری کے لیے ’پابلو ایسکوبار‘ کا نام اور تصاویر استعمال کرتے ہیں۔ ڈرگز کی دنیا میں باس کے نام سے مشہور اس ’’ڈان‘‘ کو پولیس نے 1993 میں قتل کر دیا تھا۔ اس وقت پابلو کے جنازے میں تقریباﹰ بیس ہزار افراد شریک ہوئے تھے اور کولمبیا میں آج بھی اس باس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: RAUL ARBOLEDA/AFP/GettyImages
الچاپو کے بعد نیا کون؟
دو مرتبہ جیل سے فرار ہونے کے بعد جنوری دو ہزار سولہ میں گزمان الچاپو کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ الچاپو کا شمار بھی دنیا کے اہم ترین اسمگلروں میں ہوتا تھا۔ اس اسمگلر نے ایک انٹرویو کے سلسلے میں امریکی اداکار شین پین کے ساتھ ایک جنگل میں ملاقات کی تھی۔ میکسیکن حکام کو اسی ملاقات کے بعد اس اسمگلر کے ٹھکانے کا پتہ چلا تھا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔
تصویر: Imago
کولمبیا کی کارکردگی
جہاں تک نظر جائے وہاں تک منشیات ہی منشیات۔ کولمبیا کی بندرگاہ پر باقاعدگی سے منشیات قبضے میں لی جاتی ہے لیکن سن 2005ء میں ریکارڈ 3.1 ٹن کوکین قبضے میں لی گئی۔ یہ کولمبیا سے میکسیکو اسمگل کی جا رہی تھی۔
تصویر: Mauricio Duenas/AFP/GettyImages
پوپ فرانسس اور رحم
فروری میں پوپ فرانسس نے اپنے دورہ میکسیکو کے دوران خواتین کی ایک جیل کا دورہ بھی کیا۔ میکسیکو کی 102 جیلوں میں گیارہ ہزار خواتین قید ہیں اور ان میں سے نصف کی عمریں تیس برس سے بھی کم ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر منشیات کے مقدمات میں جیل کاٹ رہی ہیں۔