جرمنی میں منی لانڈرنگ: ایک سال میں 50 فیصد کا ریکارڈ اضافہ
18 اگست 2020
جرمنی کی مالیاتی تفتیشی ایجنسی کے مطابق ملک میں منی لانڈرنگ میں گزشتہ برس ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کالے دھن کو سفید بنانے کے واقعات میں پچاس فیصد اضافہ دیکھا گیا اور زیادہ تر سرمایہ کاری جائیدادیں خریدنے میں کی گئی۔
اشتہار
جرمن حکومت کے قائم کردہ مالیاتی تفتیشی یونٹ (FIU) نے سال 2019ء کے لیے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پچھلے سال یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت میں ناجائز رقوم کو قانونی شکل دینے کے واقعات میں تقریباﹰ 50 فیصد کا اضافہ ہوا۔
یہ منی لانڈرنگ مشکوک مالیاتی منتقلیوں کی شکل میں کی گئی اور اس طرح ناجائز مالی وسائل کی ترسیل دہشت گردانہ مقاصد کے لیے بھی کی گئی۔
برلن سے شائع ہونے والے اخبار 'ٹاگیس اشپیگل‘ نے لکھا ہے کہ وفاقی جرمن ادارے فنانشنل انٹیلیجنس یونٹ کے مطابق 2019ء میں ملک میں منی لانڈرنگ کے لیے رقوم کی منتقلی کے کُل 114,914 واقعات رجسٹر کیے گئے۔
یہ تعداد 2018ء میں ایسے کیسز کی تعداد کے مقابلے میں تقریباﹰ ڈیڑھ گنا بنتی ہے، جو سالانہ بنیادوں پر ایک ریکارڈ ہے۔
رقوم کی مشکوک منتقلی کے ان واقعات کا پتا جرمن بینکوں، مالیاتی اداروں اور جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے اداروں کی مدد سے چلایا گیا۔ ان واقعات میں مجموعی طور پر 355,000 مرتبہ رقوم کی منتقلی عمل میں آئی۔
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/M. Swarup
14 تصاویر1 | 14
ایف آئی یو کے سربراہ کرسٹوف شُلٹے نے اخبار 'ٹاگیس اشپیگل‘ کو بتایا، ''ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جرمنی میں منی لانڈرنگ سے متعلقہ معاملات میں قصور وار افراد کو سزائیں دلوانے کا عمل اب تک ایک پختہ قانونی روایت نہیں بن سکا۔‘‘
زیادہ سرمایہ کاری جائیدادیں خریدنے میں
فنانشل انٹیلیجنس یونٹ نے گزشتہ برس بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ کالے دھن کے ذریعے طے پانے والے زیادہ تر مشکوک کاروباری معاہدے پراپرٹی مارکیٹ میں کیے جاتے ہیں۔
2018ء میں جرمنی میں منی لانڈرنگ کے 77 ہزار واقعات رجسٹر کیے گئے تھے۔
ناجائز رقوم کی سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے جرمنی میں اب تک جو اقدامات کیے جا چکے ہیں، ان میں ایک ایسا نیا قانون بھی شامل ہے، جو ملکی پارلیمان نے گزشتہ برس نومبر میں منظور کیا تھا۔ اس کا مقصد منی لانڈرنگ سے متعلق جرمن قوانین کو یورپی یونین کے ضوابط سے ہم آہنگ کرنا تھا۔
جرمن تاریخ کے سب سے بڑے دیوالیے کی کہانی
ماضی میں یورپ کے سب سے بڑے ڈرگ اسٹور کے نیٹ ورک ’شلیکر‘ کے مالک انتون شلیکر اور ان کے بچوں کو ایک جرمن عدالت نے جیل بھیج دیا ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے پچاس ہزار سے زائد ملازمین پر مشتمل ’شلیکر ایمپائر‘ کیسے دیوالیہ ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
ترقی کی پہلی سیڑھی
انتون شلیکر نے 1975 ء میں کرشہائم نامی علاقے میں اپنی پہلی ڈروگری مارکیٹ کھولی تھی۔ صرف دو ہی برسوں میں اس کی سو شاخیں کھل چکی تھیں۔ انتون نے نو سال بعد دعوی کیا تھا کہ ان کی ایک ہزار شلیکر شاپس ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک
1987ء میں شلیکر نے جرمنی سے باہر اپنے قدم جمانے کی ابتدا کی۔ 2007ء میں شلیکر کا دائرہ یورپ کے تیرہ ملکوں تک پھیل چکا تھا اور اس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 52 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ پورے یورپ میں شلیکر کی تقریباً دس ہزار شاخیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
الزامات
دفتر استغاثہ نے شلیکر ڈروگری اسٹور ( ادویات اور عام اشیاء کی دکان) پر صرف یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انہوں نے اپنی مالی معاملات چھپائے ہیں بلکہ تمام چھتیس مختلف واقعات میں شلیکر نے ایسے اثاثے بنائے ہیں، جنہیں دیوالیہ میں شامل ہونا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
فرد جرم
تین سال تک اشٹٹ گارٹ شہر میں استغاثہ نے شلیکر کے خلاف تفتیشی عمل جاری رکھا اور پھر گزشتہ برس اپریل میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ فرد جرم کی دستاویز 270 صفحات پر مبنی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M.Murat
عدالتی فیصلہ
جرمن شہر اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے 72 سالہ انتون شلیکر اور ان کے دو بچوں لارس اور مائیکے شلیکر کو قید اور ان کی بیوی کو جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ انتون ’شلیکر ایمپائر‘ بہت محنت سے کھڑی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Warnack
اثاثے
ذرائع کے مطابق انتون شلیکر نے پچیس ملین یورو کے اثاثے بنائے ہیں۔ اس دوران ان کی اہلیہ، دونوں بچوں اور ان کے مالی معاملات کی نگرانی کرنے والے دو افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا۔ ان پر بدعنوانی میں تعاون، دیوالیہ پن میں تاخیر اور فریب کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-P. Strobel
شلیکر جوڑا اور بدعنوانی
1998ء میں اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے شلیکر جوڑے کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں دس ماہ قید کی معطّل سزا سنائی تھی کیونکہ انہوں نے اپنے ایک ملازم کو قانون کے مطابق تنخواہ ادا نہیں کی تھی۔ اس کے چند سال بعد شلیکر کی انتظامیہ بھی اس وقت تنقید کی زد میں آ گئی جب ان کی جانب سے ملازمین کی نگرانی کے لیے غیر قانونی طور پر کیمرے نصب کیے گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa
سزا
دیوالیہ پن سے منسلک اگر جرائم بھی ہوں تو اس کی سزا پانچ سال تک کی قید ہے جبکہ سنیگن جرم کی صورت میں سزا دس سال بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Försterling
شلیکر بند
شلیکر کا شمار یورپ کی بڑی ڈروگری مارکیٹ میں ہوتا تھا۔ اس گروپ کی جانب جنوری 2012ء نے دیوالیہ پن کی درخواست جمع کروائی گئی تھی۔ شلیکر کو بچانے کی کوشش بے نتیجہ رہی۔ جون 2012ء میں شلیکر بند کر دی گئی تھی اور جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں پچاس ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہو گئے تھے۔
تصویر: DW/ C. Ricking
9 تصاویر1 | 9
اس قانون کے تحت جائیداد کی خرید و فروخت میں معاونت کرنے والے پراپرٹی ایجنٹوں، قانونی ماہرین، قیمتی دھاتوں کے تاجروں اور نیلام گھروں تک کو پابند بنایا جا چکا ہے کہ وہ حکام کو اپنے ہاں سرمائے کی ہر قسم کی مشکوک منتقلی کی اطلاع دیں۔
تیس بلین یورو کی بلیک منی سے خریدی گئی جائیدادیں
بدعنوانی اور مالیاتی بے قاعدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی جرمن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کی مؤثر روک تھام کے لیے قانونی اصلاحات متعارف کرائے۔
اس تنظیم نے یہ بات خاص طور پر اس انکشاف کے بعد کہی کہ 2017ء میں جرمن پراپرٹی مارکیٹ میں 30 بلین یورو (34 بلین ڈالر) کے کالے دھن کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔
ٹرانسپیرنسی کے مطابق منظم جرائم پیشہ گروہ، جیسا کہ اطالوی مافیا گروپ، جرمن قوانین میں موجود سقم استعمال کرتے ہوئے ملک میں اس طرح جائیدادیں خریدتے ہیں کہ یوں ان کے لیے ناجائز رقوم کو جائز ظاہر کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل کردہ رقوم کا 15 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک حصہ غیر منقولہ املاک کی خریداری میں لگا دیا جاتا ہے۔
جرمن ایجنسی ایف آئی یو کا صدر دفتر مغربی شہر کولون میں ہے اور قانوناﹰ یہ تفتیشی ادارہ جرمنی میں کسٹمز کے محکمے کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔