مہاجرین دشمنی نازیوں کی یہود دشمنی سے مختلف نہیں، مسلم رہنما
18 اپریل 2016جرمنی میں یہ جماعت خاصی کمزور تھی، تاہم گزشتہ برس جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جانب سے مہاجرین دوست پالیسی اور لاکھوں مہاجرین کی جرمنی میں آمد کی وجہ سے اس جماعت کی مقبولیت خاصی بڑھی ہے۔ کچھ عرصے قبل جرمنی کے تین صوبوں میں ہونے والے انتخابات میں اس جماعت نے خاصی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت سے ناراض ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور اچھی خاصی نشستیں حاصل کی ہیں۔
اس جماعت کا موقف ہے کہ اسلام جرمن دستور سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسی تناظر میں یہ جماعت کی ریلیوں میں مسلم مخالف مظاہرے بھی سنائی دیتے رہے ہیں۔
جرمنی کی مرکزی کونسل برائے مسلمز کے سربراہ ایمن میزیک نے ایک جرمن ٹی وی چینل سے بات چیت میں کہا، ’’ہٹلر کے نازی جرمنی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مذہبی وابستگی کی بنیاد پر جرمنی میں مسلمانوں کو خوف کا سامنا ہے۔‘‘
AfD کی جانب سے ویک اینڈ پر اعلان کیا گیا تھا کہ وہ دو ہفتے بعد اپنی جماعتی کانگریس میں جرمنی میں میناروں والی مساجد اور برقعے پر پابندی کے حوالے سے آواز اٹھائے گی۔
اس کے جواب میں ایمن میزیک نے کہا، ’’AfD اسلاموفوبیا کی لہر کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہ اسلام مخالف نہیں جمہوریت مخالف راستہ ہے۔‘‘
اس سے قبل چانسلر میرکل کی جماعت کی جانب سے ایسے مطالبات سامنے آئے ہیں کہ جرمنی میں برقعے پر پابندی عائد کی جائے۔ اس جماعت کا موقف ہے کہ عوامی مقامات پر خواتین کو اپنا پورا وجود ڈھانپنے کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے۔ تاہم میرکل کی جماعت کا موقف ہے کہ اسلام جرمنی کے دستور سے متصادم ہر گز نہیں۔
الٹرنیٹیو فار جرمنی AfD کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین کا شام سے جرمنی پہنچنا اور خصوصاﹰ ان میں زیادہ تر شام، عراق اور افغانستان کے مسلم باشندوں کا جرمنی میں داخل ہونا، جرمنی کی ثقافت اور اقدار کے لیے خطرات کا باعث بنے گا۔
یہ بات اہم ہے کہ اس جماعت کی مقبولیت میں اضافے پر جرمنی کی اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ نائب جرمن چانسلر زیگمار گابریل نے اپنے ایک حالیہ بیان میں الزام عائد کیا تھا کہ AfD اسی زبان کا استعمال کرتی نظر آتی ہے، جو آڈولف ہٹلر کے دور میں نازی استعمال کیا کرتے تھے۔