جرمنی میں مہاجرین کا اپنے اہل خانہ کو بلانا اب مزید مشکل
4 اپریل 2018مقامی جرمن میڈیا کے مطابق وفاقی جرمن وزارت داخلہ کی جانب سے مہاجرین کے اہل خانہ کو جرمنی بلوانے کے قوانین میں تبدیلی کی تجویز پر کام کیا جارہا ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ نے اس حوالے سے ایک قانونی مسودہ تیار کر لیا ہے جسے پر دیگر وزارتوں سے تجاویز حاصل کرنے کے بعد وفاقی کابینہ میں پیش کر دیا جائے گا۔
ڈی پی اے کی اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مہاجرین کے اہل خانہ کو جرمنی لانے سے متعلق موجودہ قانون رواں برس جولائی کے آخر تک فعال رہے گا۔ چانسلر میرکل کی سیاسی جماعت ’سی ڈی یو‘ اور مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی سیاسی جماعت ایس پی ڈی کا ارداہ ہے کہ اس کے بعد مہاجرین کے جرمنی آنے والے اہل خانہ کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ تعداد ایک ہزار تک مقرر کر دی جائے گی۔
مہاجرین اپنے اہلخانہ کو جرمنی لا سکیں گے یا نہیں؟
مہاجرین اپنے خاندان جرمنی کیسے بلائیں؟
مزید اس تجویز کے مطابق آئند مہاجرین کے شریک حیات، نابالغ اور غیر شادی شدہ بچوں یا پھر جرمنی میں مقیم نابالغ بچوں کے والدین کو ہی جرمنی آنے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والوں میں بعض شادی شدہ نابالغ تارکین وطن بھی شامل تھے۔ جرمنی میں نابالغوں کی شادی ایک غیر قانونی عمل ہے۔
’مہاجرین کے اہل خانہ سے متعلق جرمن قوانین غیر آئینی ہیں‘
لاکھوں تارکین وطن اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلانے کے حق دار
جرمن میڈیا میں اس مجوزہ قانونی مسودے کے جاری کردہ مندرجات کے مطابق نئے قوانین کے تحت ماضی میں جہادی تنظیموں سے وابستہ رہنے والے افراد، دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث مشکوک افراد کے علاوہ نفرت آمیز بیانات پھیلانے والے مبلغوں اور جرمنی میں ممنوع تنظیموں سے وابستہ افراد کو جرمنی آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ تجویز بھی شامل کر دی گئی ہے کہ جرمنی میں مقیم ایسے مہاجرین کو، جو ابھی تک سوشل سکیورٹی حاصل کر رہے ہیں، اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دوسری جانب جرمنی کی نئی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی تنظیموں کے باہمی معاہدے میں جرمنی آنے والے مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ سالانہ حد مقرر کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق سالانہ ایک لاکھ اسی ہزار سے دو لاکھ بیس ہزار مہاجرین، تارکین وطن اور ان کے اہل خانہ کو جرمنی آنے کی اجازت دی جائے گی۔ تاہم ابھی اس حوالے سے جرمن وزارت داخلہ کے اہلکاروں کی جانب سے ایک رپورٹ تیار کی جارہی ہے۔
ع آ/ ش ح (ڈی پی اے)