1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتجرمنی

جرمنی میں مہاجرین کی تعداد میں 2011ء کے بعد سے پہلی بار کمی

مقبول ملک ، ڈی پی اے اور ای پی ڈی کے ساتھ
19 ستمبر 2025

یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں مقیم مہاجرین کی مجموعی تعداد میں 2011ء کے بعد سے آج تک پہلی بار کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ بات وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار میں بتائی گئی ہے۔

یورپ میں مہاجرین کے بحران کے نقطہ عروج پر 2015ء میں لاکھوں تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔ برلن میں کی گئی ان مہاجرین کے ایک گروپ کی تصویر
یورپ میں مہاجرین کے بحران کے نقطہ عروج پر 2015ء میں لاکھوں تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔ برلن میں کی گئی ان مہاجرین کے ایک گروپ کی تصویرتصویر: Sean Gallup/Getty Images

اس بارے میں برلن حکومت سے ایک سوال جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لِنکے (لیفٹ پارٹی) کی طرف سے پوچھا گیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ تفصیلات جمعہ 19 ستمبر کو لیفٹ پارٹی کی طرف سے عام کی گئیں۔

حکومتی ڈیٹا کے مطابق جرمنی میں رہائش پذیر غیر ملکی مہاجرین کی آبادی میں رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران تقریباﹰ 50 ہزار کی کمی ہوئی۔ 2024ء کے اختتام پر یہ تعداد قریب 3.55 ملین تھی، جو اس سال 30 جون تک 50 ہزار کی کمی کے بعد 3.5 ملین ہو چکی تھی۔

جرمن پولستانی سرحد پر نگرانی کا عمل، اس سال جولائی میں لی گئی ایک تصویرتصویر: Monika Stefanek/DW

2011ء کے بعد پہلی بار کمی

اس ڈیٹا سے یہ پتا بھی چلا کہ گزشتہ ششماہی کے دوران جرمنی میں مقیم مہاجرین کی مجموعی تعداد میں دراصل 2011ء کے بعد سے پہلی مرتبہ کمی ہوئی ہے۔

اس وقت جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد میں پناہ کے متلاشی وہ تارکین بھی شامل ہیں، جو حال ہی میں جرمنی آئے۔

ان کے علاوہ اس تعداد میں ملک میں پہلے سے طویل المدتی بنیادوں پر مقیم مہاجرین بھی شامل ہیں اور وہ یوکرینی باشندے بھی جو کییف کی روس کے خلاف جنگ کے باعث اپنے جانیں بچانے کے لیے بطور مہاجرین یوکرین سے جرمنی آئے تھے۔

جولائی 2015ء میں آسٹریا کی سرحد پار کر کے جرمنی میں داخل ہونے والے پنای کے متلاشی تارکین وطن کی جرمن شہر پاساؤ میں ایک رجسٹریشن مرکز میں لی گئی تصویرتصویر: Joerg Koch/Getty Images

لیفٹ پارٹی کے مطابق ملک میں مہاجرین کی مجموعی تعداد میں ہونے والی کمی ان مختلف عوامل کے نتائج کی مظہر بھی ہے، جن میں جرمنی سے پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کا ملک بدر کیا جانا، مہاجرین کا رضاکارانہ طور پر واپس جانا اور ان کا لازمی قانونی شرائط پوری کرنے کے بعد جرمن شہریت حاصل کر لینا بھی شامل ہیں۔

قریب پانچ لاکھ مہاجرین کی قانونی حیثیت غیر یقینی

جرمن وزارت داخلہ کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق 83,150 شامی باشندوں کو جرمن شہریت دی جا چکی ہے اور ایسا نہیں تھا کہ یہ سب کے سب شامی مہاجرین تھے۔

بلغاریہ اور ترکی کے درمیان سرحد پر یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس میں شامل وفاقی جرمن پولیس کے اہلکار گشت کرتے ہوئےتصویر: Soeren Stache/dpa/picture alliance

اس کے علاوہ فی الوقت جرمنی میں مقیم تقریباﹰ 3.5 ملین مہاجرین میں سے قریب نصف ملین (492,000) ایسے ہیں، جن کے قیام کی قانونی حیثیت غیر یقینی ہے۔ یہ غیر ملکی ایسے افراد ہیں، جن کی طرف سے پناہ کے لیے دی گئی درخواستوں پر یا تو ابھی سرکاری کارروائی جاری ہے، یا پھر جنہیں عارضی طور پر ملک میں قیام کی اجازت دی گئی ہے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سال جولائی کے آخر تک اپنے وطن میں جنگ کی وجہ سے جرمنی میں رہائش پذیر یوکرینی مہاجرین کی تعداد 1.27 ملین بنتی تھی۔

جرمن ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کی لیفٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن کلارا بیُونگر نے ان اعداد و شمار کے حوالے سے کہا کہ ملک میں مہاجرین کی مجموعی تعداد میں یہ کمی ''خوشیاں منانے کی کوئی وجہ نہیں‘‘ کیونکہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں پر سختی کی وجہ سے تحفظ کے ضرورت مند انسان اب مقابلتاﹰ کم تعداد میں یورپ پہنچ رہے ہیں۔

ادارت: امتیاز احمد

پاکستان سے جرمنی پہنچنے والے افغان نئی زندگی کی تلاش میں

03:33

This browser does not support the video element.

مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں