جرمنی میں مہاجرین کی فیملی ری یونین کا آج سے دوبارہ آغاز
1 اگست 2018
جرمنی نے محدود ضمنی تحفظ کے حامل مہاجرین کے لیے فیملی ری یونین کے عمل کا دو سال تعطل کے بعد دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔ برلن حکومت نے پناہ گزینوں کے لیے ری یونین پالیسی مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے لیے معطل کی تھی۔
اشتہار
جرمنی میں مہاجرین کے خاندانوں کی ری یونین کے متنازعہ ضوابط بدھ یکم اگست سے ملک میں نافذ کیے جا رہے ہیں۔ ان کے تحت محدود ضمنی تحفظ کے حامل تارکین وطن اپنے خاندان کو جرمنی بلا سکیں گے۔
مہاجرین کے معاملے پر پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے میرکل کی سیاسی پارٹی ’سی ڈی یو‘ اور باویریا میں اس کی ہم خیال ’سی ایس یو‘ کے درمیان سیاسی دراڑیں واضح ہونے لگی تھیں اور میرکل حکومت کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔
فیملی ری یونین کا قانون کن مہاجرین پر لاگو ہو گا؟
وہ مہاجرین جنہیں جرمنی میں عارضی تحفظ حاصل ہو چکا ہے، اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلا سکیں گے۔ ان ضوابط کے تحت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار افراد ہر ماہ جرمنی آئیں گے۔ بالغ پناہ گزینوں کو اپنے شوہر یا بیوی اور کم سن بچوں کو بلانے کا حق ہو گا۔ اس کے علاوہ جرمنی میں مقیم نا بالغ مہاجر بچوں کے والدین بھی فیملی ری یونین قانون کے تحت جرمنی بلائے جانے کے زُمرے میں آتے ہیں۔
انسانی بنیادوں پر بھی بعض کیسوں میں فیملی ری یونین پر غور کیا جا سکتا ہے۔
دفتری مشکلات
عالمی ادارہ مہاجرت نے خبردار کیا ہے کہ جرمنی میں خاندانوں کے ملاپ یا فیملی ری یونین کے عمل میں شفافیت کی کمی ہے اور یہ غیر ضروری طور پر پیچیدہ بھی ہے۔
یو این ایچ سی آر کے جرمنی میں نمائندے ڈومینیک بارٹش نے حکومت کو ری یونین کے عمل کو تیز کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا،’’ بہت سے متاثرہ افراد سالوں سے اپنے خاندانوں سے الگ ہیں۔‘‘
شامی مہاجرین خاص طور پر متاثر
شامی تارکین وطن کو زیادہ تر عارضی تحفظ دیا گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر خانہ جنگی کے سبب ملک چھوڑ کر آئے تھے اور یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وہ ذاتی طور پر ظلم و ستم کا شکار ہوئے تھے۔ اس عارضی تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور جرمنی نے اسے مہاجرین کے واپس لوٹنے کے لیے محفوظ قرار دیا، ان شامی تارکین وطن کو واپس جانا ہو گا۔
فیملی ری یونین معطل کیوں ہوئی تھی؟
عارضی تحفظ کی حیثیت پانے والے مہاجرین کے رشتے داروں سے ری یونین کو مارچ سن 2016 میں دو سال کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ تعطلی کے بِل کا مقصد مشرق وسطی سے آنے والے پناہ گزینوں کے بہاؤ کو کم کرنا تھا۔ رواں برس فروی کے مہینے میں جرمن پارلیمان نے اس تعطلی میں چھ ماہ کی توسیع کے لیے ووٹنگ کی تھی۔
ری یونین کا عمل مکمل ہونے میں کتنا وقت درکار ہو گا؟
فیملی ری یونین میں کئی برس کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بڑی تعداد میں پناہ کے لیے دائر درخواستوں کی بڑی تعداد ہے۔ یوں تو خیال ہے کہ اگست سے دسمبر تک پانچ ہزار افراد اس اسکیم کے تحت جرمنی آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہر ماہ ایک ہزار افراد جرمنی نہیں آ پاتے تو پھر یہ تعداد آئندہ مہینوں پر منتقل ہوتی جائے گی۔
اب تک جرمن سفارت خانوں میں فیملی ری یونین کی چونتیس ہزار درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔
ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔