جرمنی میں مہاجرین کے سماجی انضمام کا نیا قانون کیا ہے؟
شمشیر حیدر25 مئی 2016
نئی ملازمتیں، جرمن زبان سیکھنا لازمی اور مہاجرین کی رہائش کے انتخاب کے مزید اور سخت قوانین۔ جرمنی میں مہاجرین کے سماجی انضمام کے نئے قوانین پر اتفاق رائے ہو چُکا ہے اور وفاقی کابینہ آج اس کی منظوری دے رہی ہے۔
اشتہار
جرمنی کی وفاقی حکومت نے مہاجرین کے سماجی انضمام کے لیے بنائے جانے والے نئے جرمن قوانین کو Fördern und fordern یعنی ’حوصلہ افزائی اور مطالبہ‘ کا نام دیا ہے۔
یہی بات اس نئے قانون کا خاصہ بھی ہے کہ حکومت سہولیات تو فراہم کرے گی لیکن ان کے عوض مہاجرین کو بھی سماجی انضمام یقینی بنانے لیے اپنی ذمہ داریاں بھی نبھانا پڑیں گی۔ سماجی انضمام کے پروگراموں میں بغیر کسی وجہ کے شامل نہ ہونے والے مہاجرین کو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے۔
[No title]
جرمنی کی سیاسی جماعتوں نے سماجی انضمام کے نئے قوانین کے مسودے پر اتفاق رائے کر لیا ہے۔ جرمن چانسر انگیلا میرکل کی سربراہی میں وفاقی کابینہ بھی آج برلن میں منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران اس قانون کو منظور کر لے گی۔
ان قوانین کے ذریعے پناہ گزینوں کو جلد از جلد جرمنی کی روزگاری کی منڈی تک پہنچایا جا سکے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مہاجرین اور تارکین وطن کو جرمن زبان بھی لازمی طور پر سیکھنا پڑے گی۔
جرمنی کے وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر اور وفاقی وزیر محنت آندریا نالَیس نے اس قانون کو تاریخی قرار دیا ہے لیکن مہاجرین کی مدد میں سرگرم سماجی ادارے اس قانونی پیکج کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔
نئے قانون کے چند اہم نکات
سماجی انضمام کے نئے قوانین کے مطابق تارکین وطن کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے وفاقی جرمن فنڈ سے مزید رقم مختص کی جائے گی۔ علاوہ ازیں تارکین وطن کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے موجود قانونی پیچیدگیوں کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں ملازمتوں کے لیے یورپی یونین کے شہریوں کو ترجیح دی جاتی تھی اور مہاجرین کو نوکری اسی صورت ملتی تھی جب اس کام کے لیے کسی یورپی باشندے نے درخواست نہ دی ہو۔
پناہ گزینوں کو سماجی انضمام کے کورسز میں لازمی طور پر شرکت کرنا پڑے گی۔ جرمن زبان کا کورس ان تارکین وطن کے لیے بھی لازمی ہے جو پہلے ہی جرمن زبان جانتے ہیں۔ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے کے ایک سال کے اندر اندر سماجی انضمام کے کورسز میں رجسٹریشن کرائی جا سکے گی، اس سے قبل مہاجرین دو سال کے اندر رجسٹریشن کروا سکتے تھے۔
جو تارکین وطن ان کورسز میں شریک نہیں ہوں گے انہیں اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے۔ قانون کے مطابق انکار کی صورت میں حکومت کی جانب سے مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات ختم یا ان میں کمی کر دی جائے گی۔
موجودہ قوانین کے مطابق جرمنی میں موجود تسلیم شدہ مہاجرین کو تین سال بعد جرمنی میں مستقل رہائش دے دی جاتی تھی۔ نئے قانون کے مطابق مستقل رہائش دیے جانے کو مہاجرین کی جرمن زبان میں قابلیت اور آمدن سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ جو تسلیم شدہ مہاجرین جرمن زبان نہیں سیکھ پائیں گے انہیں محدود وقت کے لیے ہی جرمنی میں رہنے کی اجازت ہو گی۔
نئے مسودے میں شامل ایک اور شق کے مطابق جرمنی کی وفاقی ریاستیں فیصلہ کر سکیں گی کہ مہاجرین کو کس جگہ اور کس شہر میں رکھا جائے۔ اگر کسی جگہ غیر ملکیوں کی آبادی زیادہ ہو جائے تو ایسی صورت میں صوبوں کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ مزید پناہ گزینوں کی آمد پر پابندی لگا دیں۔
بہت سے دیگر مہاجرین کی طرح شازیہ لطفی بھی جیل خانے میں ہیں۔ انیس سالہ شازیہ نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن وہ خانہ جنگی سے فرار ضرور ہوئی ہے۔ ہالینڈ میں بہت سے مہاجرین سابقہ جیل خانوں میں عارضی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ایک بستر، دو کرسیاں اور ایک کی بورڈ
ستائیس سالہ حامد کرمی اور اس کی پچیس سالہ اہلیہ فرشتے مورحیمی افغانستان سے فرار ہو کر یورپ پہنچے۔ انہیں ہارلیم کی ایک سابقہ جیل میں رہائش ملی ہے۔ حامد کی بورڈ بجاتا ہے جبکہ اس کی اہلیہ سر دھنتی ہے۔ معلوم نہیں کہ آیا یہ شادی شدہ جوڑا یورپ رہ سکے گا یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
’ڈی کوپل‘ میں زندگی
ہارلیم کا سابقہ قید خانہ ’ڈی کوپل‘ کچھ یوں دکھتا ہے۔ سینکڑوں مہاجرین کو یہاں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک پچیس سالہ رعد احسان بھی ہے، جو ایران سے یورپ پہنچا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
جیل تو جیل ہی ہوتی ہے
اگرچہ ڈچ حکام نے ان سابقہ جیل خانوں کی تعمیر نو کرتے ہوئے انہیں آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں قیام پذیر مہاجرین کا خیال رکھا جا سکے۔ تاہم جیل تو جیل ہی ہوتی ہے۔ اونچی دیواریں اور حفاظتی باڑیں حقیقی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
چائے کا کپ
حیات اللہ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ اس عارضی رہائش گاہ میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تئیس سالہ یہ افغان مہاجر اس سابقہ جیل خانے میں خوش ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
صومالیہ سے ہارلیم تک
صومالی خاتون کو ایک علیحدہ کمرہ دیا گیا ہے۔ اجاوا محمد کی عمر اکتالیس سال ہے۔ وہ بھی یہاں دیگر مہاجرین کی طرح اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کی منتظر ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
افغانستان، صومالیہ اور عراق۔۔۔
دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ یورپ پہنچے ہیں۔ وہ یہاں امن اور سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ چوبیس سالہ یاسر حجی اور اس کی اٹھارہ سالہ اہلیہ گربیا کا تعلق عراق سے ہے۔ یہ خاتون یہاں کسی باربر یا بیوٹی سیلون نہیں جاتی بلکہ اس کا شوہر ہی اس کا خیال رکھتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
کپڑے دھونے کا انتظام
مہاجرین کو اس سابقہ جیل خانے میں تمام سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں ان کے لیے واشنگ مشینیں بھی ہیں تاکہ وہ اپنے میلے کپڑوں کو دھو سکیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ہم جنس پرستی کی سزا نہیں
یہ نوجوان مراکش سے آیا ہے۔ وہاں اس ہم جنس پرست نوجوان کو جان کا خطرہ تھا۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن یورپ میں اسے اپنے جسنی میلانات کے باعث اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
عبادت کا وقت
فاطمہ حسین کا تعلق عراق سے ہے۔ پینسٹھ سالہ یہ خاتون بھی شورش سے فرار ہو کر ہالینڈ پہنچی ہے۔ اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر محمد محسین کو حالت نماز میں تصویر بنانے کی اجازت دی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
آزادی سلب نہ کی جائے
چالیس سالہ ناران باتار کا تعلق منگولیا سے ہے۔ وہ ہارلیم کی سابقہ جیل کے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے واپس روانہ نہیں کیا جاتا تو آزاد رہے گا۔