1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مہاجر خاندانوں کا ملاپ، اعداد وشمار کیا کہتے ہیں؟

عاطف بلوچ، روئٹرز
23 اکتوبر 2017

جرمنی میں مقیم مہاجرین کے قریبی رشتہ داروں کی جرمنی آمد کی شرح پہلے سے لگائے گئے اندازوں سے کہیں کم ہے۔ جرمنی میں نئی حکومت سازی کے تناظر میں اسے چانسلر میرکل کی سیاسی مشکلات کم ہونے کے حوالے سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔

Deutschland Berlin Ehrenamtliche Flüchtlingshelfer
تصویر: Getty Images/C. Koall

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک نئے مطالعے کے نتائج کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی میں آباد مہاجرین کے ایسے رشتے داروں کے جرمنی آنے کا تناسب پہلے سے لگائے گئے حکومتی اندازوں سے کافی کم ہے، جنہوں نے جرمنی آنے کے حوالے سے تمام تر قانونی لوازمات پورے کر دیے تھے۔

انسٹی ٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ ریسرچ (IAB) کی طرف سے کرائے گئے اس مطالعے کے نتائج کے مطابق جرمن حکومت نے روان برس کے اختتام تک ایک لاکھ تا ایک لاکھ بیس ہزار ایسے مہاجرین کے بچوں اور بیویوں کو جرمنی بلوانا ہے، جو جرمنی میں باقاعدہ طور پر مہاجر کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔

جرمن حکومت نے ایک لاکھ فیملی ری یونین ویزے جاری کیے

جرمنی: شامی مہاجرین کی فیملی ری یونین کا معاملہ کھٹائی میں

’یورپ بھر میں مہاجرین کو ایک جیسی مراعات دی جائیں‘

مزید انتظار نہیں!

01:26

This browser does not support the video element.

اسی طرح جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایسے افراد، جنہیں ’سبسڈری پروٹیکشن‘ مل چکی ہے، ان کے بھی پچاس تا ساٹھ ہزار رشتہ دار جرمنی میں اپنے کنبے کے پاس آ سکیں گے۔ تاہم یہ اعدادوشمار جرمن حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ماضی کے تخمینوں کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔

سن دو ہزار پندرہ میں جب جرمنی میں بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد ہوئی تھی تو بتایا گیا تھا کہ پناہ حاصل کرنے والوں کی ’فیملی ری یونیفیکشن‘ یا خاندانوں کے ملاپ کے  وجہ سے جرمنی میں موجود مہاجرین کی تعداد دو یا تین گنا زیادہ ہو جائے گی۔

جون سن دو ہزار سولہ میں جرمن دفتر برائے مہاجرت BAMF نے اندازہ لگایا تھا کہ جرمنی میں پناہ حاصل کرنے والے ہر شامی کو اپنا ایک رشتہ دار جرمنی بلوانے کی اجازت ہو گی۔ تاہم IAB کے تازہ مطالعے کے نتائج کے مطابق جرمنی آنے والے زیادہ تر مہاجرین جوان اور غیر شادی شدہ ہیں۔

اس مطالعے کے مطابق ان میں سے صرف 46 فیصد بالغ یا شادی شدہ ہیں جبکہ 43 فیصد کے بچے بھی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ کے بعد سے تقریبا ایک ملین پناہ کے متلاشی افراد جرمنی داخل ہوئے ہیں۔ تاہم IAB کے اندازوں کے مطابق اس سال کے اختتام تک قریب چھ لاکھ مہاجرین کو جرمنی میں رہنے کی اجازت ہو گی۔

جرمن پارلیمانی انتخابات کی مہم کے دوران ان مہاجرین کےخاندانوں کے ملاپ کا معاملہ کافی شدت اختیار کر گیا تھا۔ اس الیکشن میں میرکل کے سیاسی اتحاد کی کامیابی کے بعد اب مخلوط حکومت سازی کی کوششوں میں بھی یہ معاملہ گرما گرم بحث اختیار کر چکا ہے۔

انگیلا میرکل کی سیاسی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو)، باویریا میں اپنی ہم خیال کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی خاطر فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) اور گرین پارٹی کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کر رہی ہے۔

چانسلر انگیلا میرکل ایسے مہاجرین کی فیملی ری یونین کو معطل ہی رکھنا چاہتی ہیں، جنہوں نے مارچ سن دو ہزار آٹھ کے بعد جرمنی میں پناہ حاصل کی ہے۔ تاہم گرین پارٹی اس تناظر میں اختلاف رکھتی ہے۔ اس ماحول دوست پارٹی کا موقف ہے کہ مہاجرین کے معاشرتی انضمام کے لیے جرمنی میں موجود مہاجرین کے گھر والوں کو بھی ان کے پاس بلوا لینا انتہائی اہم ہے۔

دوسری طرف ایف ڈی پی اس معاملے پر اندروانی اختلافات کا شکار ہے۔ ناقدین کے مطابق فیملی ری یونین کے حوالے سے کم اعداد وشمار جرمنی میں حکومت سازی کے حوالے سے ایک اہم رکاوٹ کو دور کر دیں گے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں