جرمنی میں مہاجر خاندانوں کا ملاپ، اعداد وشمار کیا کہتے ہیں؟
عاطف بلوچ، روئٹرز
23 اکتوبر 2017
جرمنی میں مقیم مہاجرین کے قریبی رشتہ داروں کی جرمنی آمد کی شرح پہلے سے لگائے گئے اندازوں سے کہیں کم ہے۔ جرمنی میں نئی حکومت سازی کے تناظر میں اسے چانسلر میرکل کی سیاسی مشکلات کم ہونے کے حوالے سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک نئے مطالعے کے نتائج کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی میں آباد مہاجرین کے ایسے رشتے داروں کے جرمنی آنے کا تناسب پہلے سے لگائے گئے حکومتی اندازوں سے کافی کم ہے، جنہوں نے جرمنی آنے کے حوالے سے تمام تر قانونی لوازمات پورے کر دیے تھے۔
انسٹی ٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ ریسرچ (IAB) کی طرف سے کرائے گئے اس مطالعے کے نتائج کے مطابق جرمن حکومت نے روان برس کے اختتام تک ایک لاکھ تا ایک لاکھ بیس ہزار ایسے مہاجرین کے بچوں اور بیویوں کو جرمنی بلوانا ہے، جو جرمنی میں باقاعدہ طور پر مہاجر کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔
اسی طرح جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایسے افراد، جنہیں ’سبسڈری پروٹیکشن‘ مل چکی ہے، ان کے بھی پچاس تا ساٹھ ہزار رشتہ دار جرمنی میں اپنے کنبے کے پاس آ سکیں گے۔ تاہم یہ اعدادوشمار جرمن حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ماضی کے تخمینوں کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔
سن دو ہزار پندرہ میں جب جرمنی میں بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد ہوئی تھی تو بتایا گیا تھا کہ پناہ حاصل کرنے والوں کی ’فیملی ری یونیفیکشن‘ یا خاندانوں کے ملاپ کے وجہ سے جرمنی میں موجود مہاجرین کی تعداد دو یا تین گنا زیادہ ہو جائے گی۔
جون سن دو ہزار سولہ میں جرمن دفتر برائے مہاجرت BAMF نے اندازہ لگایا تھا کہ جرمنی میں پناہ حاصل کرنے والے ہر شامی کو اپنا ایک رشتہ دار جرمنی بلوانے کی اجازت ہو گی۔ تاہم IAB کے تازہ مطالعے کے نتائج کے مطابق جرمنی آنے والے زیادہ تر مہاجرین جوان اور غیر شادی شدہ ہیں۔
اس مطالعے کے مطابق ان میں سے صرف 46 فیصد بالغ یا شادی شدہ ہیں جبکہ 43 فیصد کے بچے بھی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ کے بعد سے تقریبا ایک ملین پناہ کے متلاشی افراد جرمنی داخل ہوئے ہیں۔ تاہم IAB کے اندازوں کے مطابق اس سال کے اختتام تک قریب چھ لاکھ مہاجرین کو جرمنی میں رہنے کی اجازت ہو گی۔
جرمن پارلیمانی انتخابات کی مہم کے دوران ان مہاجرین کےخاندانوں کے ملاپ کا معاملہ کافی شدت اختیار کر گیا تھا۔ اس الیکشن میں میرکل کے سیاسی اتحاد کی کامیابی کے بعد اب مخلوط حکومت سازی کی کوششوں میں بھی یہ معاملہ گرما گرم بحث اختیار کر چکا ہے۔
انگیلا میرکل کی سیاسی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو)، باویریا میں اپنی ہم خیال کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی خاطر فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) اور گرین پارٹی کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کر رہی ہے۔
چانسلر انگیلا میرکل ایسے مہاجرین کی فیملی ری یونین کو معطل ہی رکھنا چاہتی ہیں، جنہوں نے مارچ سن دو ہزار آٹھ کے بعد جرمنی میں پناہ حاصل کی ہے۔ تاہم گرین پارٹی اس تناظر میں اختلاف رکھتی ہے۔ اس ماحول دوست پارٹی کا موقف ہے کہ مہاجرین کے معاشرتی انضمام کے لیے جرمنی میں موجود مہاجرین کے گھر والوں کو بھی ان کے پاس بلوا لینا انتہائی اہم ہے۔
دوسری طرف ایف ڈی پی اس معاملے پر اندروانی اختلافات کا شکار ہے۔ ناقدین کے مطابق فیملی ری یونین کے حوالے سے کم اعداد وشمار جرمنی میں حکومت سازی کے حوالے سے ایک اہم رکاوٹ کو دور کر دیں گے۔
خوش آمدید: جرمنی میں مہاجرین کے لیے منفرد رہائش گاہیں
مہاجرین کی رہائش کے لیے روایتی طور پر خیمے، کنٹینرز اور متروکہ ہارڈ ویئر اسٹورز استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں مہاجرین کی رہائش کے لیے اچھوتے منصوبوں پر غور جاری ہے تاکہ وہ جرمنی میں آرام دہ زندگی بسر کر سکیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
چھتوں کے اوپر
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے ایک منصوبے کے تحت مہاجرین کی رہائش کے لیے متعدد ماڈل تیار کیے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد شہر میں ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرنا ہے، جہاں کھلا ماحول دستیاب ہو۔ تصویر میں نظر آنے والے اس ماڈل میں عمارتوں کے اوپر رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ دیگر ماڈل فی الوقت خیالی قرار دیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
تیرتے ہوئے گھر
جرمنی میں تقریباﹰ 870 بڑے کارگو بحری جہاز استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ انہیں مہاجرین کی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دریاؤں کا پانی فلٹر کرنے کے بعد ان جہازوں میں بنے مکانات کے آئندہ رہائشیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے جبکہ مکینوں کے لیے بجلی کا انتظام شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
رہائش کا شاندار خیال
ہینوور شہر میں واقع ڈچ پویلین، جہاں ایکسپو 2000ء نامی عالمی نمائش منعقد کی گئی تھی، اب خالی پڑی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کو بھی مہاجر کیمپ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تیسری منزل پر ایک بڑا گارڈن بھی ہے، جو مہاجرین کی رہائش اور آپس میں میل ملاپ کی خاطر ایک سینٹر کے طور پر اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
بنے بنائے گھر
لکڑی کے بنے بنائے گھروں کے ماڈل کسی بھی خالی مقام پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص دو عمارتوں کے درمیان واقع خالی جگہوں میں ان گھروں کو ضرورت کے مطابق کاٹ کر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مکانات محض دو تین دنوں میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر انہیں سہولت کے ساتھ وہاں سے کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ گھر آسانی سے دفاتر میں بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
باغوں میں تعمیر کردہ گھر
جرمنی میں کئی چھوٹے چھوٹے مکانات باغیوں میں بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کے مالکان انہیں باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو کرائے پر بھی دیتے ہیں۔ ان گھروں میں بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ہوتی ہیں۔ لائپزگ یونیورسٹی کے طالب علموں نے تجویز کیا ہے کہ ایسے گھروں کو مہاجرین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ خوبصورت باغیچوں میں قائم یہ رہائش گاہیں بے گھر افراد کی اداسی دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
کار پارکنگ کی عمارتوں میں رہائش
جرمن شہروں میں پبلک پارکنگ کے کئی ایسے مقامات بھی ہیں، جو مکمل طور پر استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ شہروں کے وسط میں قائم کردہ پارکنگ کے لیے بنائی گئی یہ عمارتیں مہاجرین کے سینٹرز میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ زیر زمین واقع ان عمارتوں کی کچھ منزلوں کو مہاجر سینٹر بنا دینے کے باوجود انتہائی نچلی منزلوں کو پھر بھی پارکنگ کے لیے استعمال میں لایا جا سکے گا۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
منفرد طرز کے موبائل گھر
ہینوور کے شمال میں واقع ایک پرانا کارگو اسٹیشن کئی برسوں سے بند پڑا ہے۔ وہاں بھی مہاجروں کے قیام اور آرام کے لیے عارضی رہائش گاہیں بنائی جا سکتی ہے۔ آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے اس اسٹیشن پر استعمال میں نہ لائی جانے والی بوگیوں کی مدد سے گھروں کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ جرمنی کے تقریباﹰ ہر شہر میں ایسے پرانے بے آباد اسٹیشن اب بھی قائم ہیں، جنہیں مہاجرین کی رہائش گاہوں کے طور پر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔