جرمنی میں مہاجر خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کرنے والا مافیا
27 دسمبر 2019انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے خفیہ گروہوں کی جانب سے تشدد اور استحصال کا سب سے زیادہ شکار نائجیریا سے تعلق رکھنے والی خواتین ہوئیں۔ ان جرائم پیشہ گروہوں نے زیادہ تر نائجیرین مہاجر خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کیا۔
جرمنی کا سب سے بڑا ریڈ لائٹ علاقہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ڈوئسبرگ میں ہے۔ اس ریڈ لائٹ علاقے میں نائجریا سے تعلق رکھنے والی جسم فروش خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سولوودی (Solwodi) نامی ادارے سے وابستہ باربرا ویلنر کے مطابق انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے لوگ ان میں سے زیادہ تر خواتین کو جسم فروشی کے لیے یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ ویلنر کے مطابق ان نوجوان لڑکیوں میں سے زیادہ تر محروم طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ کم تعلیم یافتہ بھی ہیں۔
ایسی لڑکیاں اکثر افریقہ میں سرگرم انسانوں کے اسمگلروں کے جال میں پھنس جاتی ہیں اور پھر افریقہ سے یورپ تک پھیلا ہوا یہ جرائم پیشہ نیٹ ورک انہیں پرخطر راستوں سے لا کر جرمنی یا دیگر مغربی یورپی ممالک تک پہنچا دیتا ہے۔
یورپ پہنچانے کا وعدہ کرتے ہوئے ان لڑکیوں کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سفر پر بہت زیادہ اخراجات ہوں گے، لیکن وہاں آمدنی بھی زیادہ ہو گی اس لیے پیسوں کا مسئلہ نہیں بنے گا۔ تاہم جرمنی آنے کے بعد یہ لڑکیاں 'میڈموں‘ کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں، جو انہیں پیسے کمانے کے لیے جسم فروشی کی راہ دکھاتی ہیں۔
پھر ان پر دباؤ بڑھانے کے لیے انسانوں کے اسمگلر سفر پر اٹھنے والے اخراجات واپس مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ مغربی افریقی جادو کی روایت جوجو کا عمل بھی کیا جاتا ہے اور لڑکیوں اور ان کے گھر والوں کو بتایا جاتا ہے کہ اگر پیسے نہ لوٹائے گئے تو لڑکیاں بیمار ہو جائیں گی یا ان کے اہل خانہ میں سے کوئی ہلاک ہو جائے گا۔ یوں ان لڑکیوں کے پاس پیسے کمانے کے لیے 'میڈموں‘ کے دکھائے ہوئے راستے، یعنی جسم فروشی پر چل پڑتی ہیں۔
خواتین کی یورپی اسمگلنگ میں اضافہ
سن 2018 میں جرمن پولیس نے نائجیرین مافیا کا شکار بننے والے 68 خواتین کے مقدمات رجسٹر کیے۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 61 فیصد زیادہ ہے۔
سن 2012 میں نائجیرین جرائم پیشہ مافیا سے نمٹنے کے لیے جرمنی نے یورپی یونین کے ایک منصوبے میں شمولیت اختیار کی تھی۔
تاہم گزشتہ تین برسوں کے دوران اس خفیہ مافیا کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ان برسوں کے دوران 20 ہزار لڑکیاں بحیرہ روم کے سمندری راستوں سے اٹلی لائی گئیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ان میں سے 80 فیصد لڑکیاں انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو سکتی ہیں۔
انسانوں کے اسمگلروں کے تشدد میں اضافہ
نائجیریا میں انسانوں کی اسمگلنگ کا ملکی ادارہ (NAPTIP) ایسے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرنے کی کوشش میں ہے۔ ڈینیئل اٹوکولو اس ادارے کے لاگوس میں سربراہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انسانوں کے اسمگلروں کا مافیا زیادہ پرتشدد ہوتا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''نائجیریا میں جوجو جادو کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد یورپ میں ان گروہوں سے وابستہ میڈموں کے پاس اب لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنے کا واحد راستہ جسمانی اور نفسیاتی تشدد ہی بچا ہے۔‘‘
یورپ میں نائجرین مافیا کی پچاس سے زائد تنظیمیں خفیہ طور پر سرگرم ہیں۔ ان تنظیموں کے اسٹرکچر کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم سکیورٹی حکام کے مطابق طاقتور قانون ساز اور کاروباری شخصیات بھی مبینہ طور پر ان کے ارکان میں شامل ہیں۔
ایسے ہی ایک خفیہ گروہ 'بلیک ایکس‘ کے سابق رکن جان اومورون یورپی ممالک کو بھی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ یورپ میں 'نوجوان لیکن سستی لڑکیوں‘ کی ڈیمانڈ ہے، جس کے باعث جرائم پیشہ افراد یہ کام کر رہے ہیں۔ اومورون کے مطابق، ''آخر میں بات پیسوں کی ہے۔ یورپی شہری منشیات، کم عمر جسم فروش لڑکیوں وغیر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جب تک یہ ضرورت برقرار رہے گی اور اس کے خلاف اقدامات نہیں کیے جائیں گے، بلیک ایکس اور دیگر مافیا پیسے کمانے کے لیے یہ کام کرتے رہیں گے۔‘‘
جان فیلپ شولز، آندیرا لؤگ (ش ح / ع ح)