جرمنی میں مہاجرین پر کیے جانے والے حملوں کی تعداد میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران ایسے حملوں کی تعداد سات سو سے کم رہی۔
اشتہار
جرمن میڈیا نے وزارت داخلہ کے حوالے سے اتوار کے دن بتایا ہے کہ جرمنی میں مہاجرین مخالف حملوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ کے پہلے چھ ماہ کے دوران مہاجرین پر حملوں کی تعداد سات سو سے کم رہی۔
قانون دانوں نے ان حملوں میں کمی کا خیر مقدم کرتے ہوئے البتہ خبردار کیا ہے کہ ملک میں ’نسل پرستی پر مبنی عدم برداشت کے روزمرہ واقعات‘ کی روک تھام کی خاطر زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
جرمن میڈیا نے بارہ اگست کو وزارت داخلہ کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران مہاجرین یا تارکین وطن افراد پر حملوں کی تعداد 627 رہی جبکہ شیلٹر ہاؤسز پر کیے جانے والے ان حملوں کی تعداد 77 رہی۔
ان حملوں میں 120 افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان حملوں میں افراد کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانا، لوٹ مار، املاک کو نقصان پہنچانا، نفرت انگیزی اور اسلحہ سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی جیسے اعمال شامل ہیں۔
گزشتہ دو برسوں کے مقابلے میں سن دو ہزار اٹھارہ کے دوران ان حملوں کی شرح انتہائی کم قرار دی جا رہی ہے۔ صرف گزشتہ برس ہی ان حملوں کی تعداد تقریبا دو ہزار دو سو کے قریب رہی تھی جبکہ سن دو ہزار سولہ میں ایسے ساڑھے تین ہزار سے زائد کیسز درج کیے گئے تھے۔
رواں برس کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن پس منظر کے حامل افراد پر حملوں میں کمی کے باوجود جرمنی کی لیفٹ پارٹی نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں جرمنی میں مہاجرین کے لیے ’عدم برداشت‘ کا جذبہ نمایاں ہے۔
لیفٹ پارٹی کے مطابق اس صورتحال کی ذمہ دار مہاجرین مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) اور باویریا میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی اتحادی کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) ہیں۔
لیفٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون ممبر پارلیمان اولا یلپکے کے بقول جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کو خیال رکھنا چاہیے کہ امیگریشن سے متعلق ان یک طرفہ منفی رائے کے نتیجے سے مہاجرین پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ’ہمیں اس سستے پراپیگنڈا کو ترک کر دینا چاہیے‘۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔