1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مہاجر مخالف، نئے نازی گروپوں کے جرائم: نیا ریکارڈ

16 اگست 2019

جرمنی میں نئے نازی گروہوں کے معمولی اور سنگین نوعیت کے جرائم کی تعداد ہزاروں میں بتائی گئی ہے۔ دائیں بازو کے گروپوں کے ان جرائم کے حوالے سے خصوصی اعداد و شمار جرمن وزارت داخلہ نے جاری کیے ہیں۔

Deutschland Stephan E. in Karlsruhe
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck

جرمن وزارت داخلہ کے مطابق رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران جرمن میں انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے کیے گئے جرائم کی تعداد 8605 ریکارڈ کی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق سن 2018 کے دوران اسی عرصے یعنی ابتدائی چھ ماہ میں ہونے والے ایسے جرائم کی تعداد تقریباً ایک ہزار کم تھی۔

جرمن وزارت داخلہ نے ان جرائم کی تعداد کی تفصیلات ملکی پارلیمان بنڈس ٹاگ میں ایک رکن کے سوال کے جواب میں فراہم کی ہیں۔ اس تفصیل کے مطابق ساڑھے آٹھ ہزار میں ہر قسم کے جرائم شامل ہیں لیکن گزشتہ برس (2018ء) اور رواں برس (2019ء) پرتشدد اور سنگین جرائم کی تعداد قریب قریب یکساں ہے

2019ء کی پہلی ششماہی کے دوران دائیں بازو کے سرگرم کارکنوں اور افراد کی جانب سے کیے گئے سنگین جرائم کی تعداد 363 بتائی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے پرتشدد واقعات میں کم از کم 179 افراد زخمی بھی ہوئے۔

نیو نازی جرائم کے خلاف مختلف جرمن شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ بھی موجود ہےتصویر: Imago Images/A. Pohl

جرمن وزارت داخلہ نے جرمن پارلیمنٹ کی نائب صدر پیٹرا پاؤ کو بتایا کہ دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے کیے گئے حملوں کی تحقیقات کے نتیجے میں 2625 مشتبہ افراد میں سے صرف تیئیس کو ہی حراست میں لیا جا سکا ہے۔ وزرات داخلہ نے بقیہ مشتبہ افراد کے حوالے سے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔

جرمن ٹیلی وژن اے آر ڈی نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی تفصیلات میں والٹر لوبیکے کے قتل کو شامل نہیں کیا گیا۔ لوبیکے کاسل شہر کی علاقائی حکومت کے سربراہ تھے۔ اس حملے کو بھی انتہائی دائیں بازو کے سنگین جرائم کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔

پولیس کے مطابق اس قتل کے شبے میں ایک پینتالیس سالہ شخص اشٹیفان ای کو حراست میں لیا گیا تھا اور اس نے اپنے بیان میں کہا کہ لوبیکے کو قتل کرنے کی وجہ اُن کو مہاجرین سے متعلق موقف تھا۔ تاہم مبینہ ملزم اشٹیفان ای بعد میں اپنے اعترافی بیان سے مُکر گیا۔

ع ح، ع ب ⁄ اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں