1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتجرمنی

جرمنی میں مہنگائی کی بلند سطح برقرار

10 مارچ 2023

اس سال فروری میں گزشتہ برس فروری کے مقابلے میں گھروں کو ترسیل کی جانے والی توانائی کی قیمتوں میں 32.2 فیصد اور اشیا خوراک کی قیمتوں میں 21.8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

Symbobildbild Deutschland Lebensmittel Obst Gemüse Supermarkt Mehrwertsteuersenkung
تصویر: Wolfgang Maria Weber/imago images

جرمنی میں گزشتہ برس فروری کے مقابلے میں اس سال فروری میں مہنگائی میں 8.7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جنوری میں بھی اس شرح میں اتنا ہی اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

وفاقی جرمن ادارہ شماریات کے جمعے کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جنوری کے مقابلے میں فروری میں مہنگائی کی شرح میں 0.8 فیصد اضافہ ہوا اور اگر توانائی اور اشیا خور و نوش کی قیمتوں کو شامل نہ کیا جائے تو فروری میں مہنگائی کی شرح 5.7 فیصد رہی۔

خوراک کی قیمتیں کم کیسے کی جائیں؟

ادارے کے صدر روتھ برینڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جرمنی میں مہنگائی کی شرح مسلسل بلند ہے اور فروری میں بھی شہری اشیا خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ توانائی کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں۔

توانائی کے ممکنہ بحران کے پیش نظر ریلیف کے حکومتی اقدامات کے باوجود پچھلے سال فروری کے مقابلے میں اس سال فروری میں ایندھن کی قیمتوں میں 19.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ یہی شرح جنوری میں 23.1 فیصد تھی۔

جرمنی میں بڑھتی مہنگائی غریب عوام کے لیے تشویش ناک

02:37

This browser does not support the video element.

لیکن جنوری کی نسبت فروری کی شرح میں معمولی کمی کے باوجود توانائی کی قیمتیں اب بھی کافی بلند ہیں۔

 اس سال فروری میں گزشتہ برس فروری کے مقابلے میں گھروں کو ترسیل کی جانے والی توانائی کی قیمتوں میں 32.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اشیا خوراک کی اس شرح میں فروری میں 21.8 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جنوری میں ان کی قیمتوں میں یہ اضافہ 20.2 فیصد تھا۔

ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ پچھلے سال فروری کے مقابلے میں اس سال فروری میں اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں مجموعی طور پر توانائی کی قیمتوں سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ اس کی ایک مثال چینی کی قیمت ہے، جو کہ 69.9 فیصد بڑھی ہے۔

جرمنی میں چھوٹے فیملی فارموں کی کمر توڑتی افراط زر

جرمنی میں بڑھتی مہنگائی کو پہلے دو سال کووڈ انیس کی وبا اور پھر گزشتہ برس فروری میں شروع ہونے والی روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے عالمی معیشت پر اثرات سے منسلک کیا جا رہا ہے۔

وفاقی جرمن ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ اس جنگ اور بحران کی صورتحال اشیا کی ترسیل میں رکاوٹ اور ان کی پیداوار کے اوائل کے مراحل کی لاگت میں اضافے کا سبب بنے، جو افراط زر پر اثر انداز ہوئے۔

م ا⁄ ش ر (روئٹرز ، ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں