جرمنی میں تحفظ آئین کے وفاقی دفتر(بی وی ایف) نے خبردار کیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی پسپائی سے غلط اندازے اخذ نہیں کرنے چاہییں۔ اس تنظیم کی جانب سے کسی وقت جرمنی میں بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔
اشتہار
جرمنی میں تحفظ آئین کے وفاقی دفتر کہلانے والی داخلی سلامتی کی نگران خفیہ ایجنسی (بی ایف وی) کے سربراہ تھوماس ہالڈنوانگ نے اخبار ویلٹ ام زونٹاگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’ میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے حوالے سے خطرے کی شدت کو کم نہیں کر سکتا۔ یہ دہشت گرد تنظیم یورپ کے لیے بدستور ایک خطرہ ہے اور خاص طور پر اپنی ورچوئیل سائبر خلافت کے حوالے سے، جو حملوں کی ترغیب دیتی ہے۔ اور جو ابھی تک اپنے حامیوں کو حملوں کے لیے تیار کر سکتی ہے۔‘‘
ہالڈنوانگ نے مزید بتایا کہ گزشتہ برس کے دوران جرمنی میں شدت پسند مسلم انتہا پسندوں کی تعداد میں تین سو سے زائد کا اضافہ ہوا ہے،’’جرمنی میں ایسے لوگوں کی تعداد تقریباً بائیس سو سے زائد ہے، جن میں مسلم دہشت گردی کی جانب جھکاؤ پایا جاتا ہے۔ ہمیں کافی حد تک یقین ہے کہ یہ کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی میں شریک ہو سکتے ہیں یا پھر کسی ایسی ہی کارروائی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘
نگرانی ’’ممکن نہیں‘‘
داخلی سلامتی کی نگرانی خیفہ ایجنسی (بی ایف وی) کے سربراہ نے بتایا کہ ان تمام مشتبہ افراد کی چوبیس گھنٹے نگرانی ممکن نہیں ہے،’’ایک ایسے شخص کی نگرانی کے لیے کم از کم چالیس اہلکار چاہیے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے صرف ان افراد پر توجہ دی ہے، جنہیں بہت ہی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔‘‘
جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے، جو ناکام بنا دیے گئے
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جرمن پولیس نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنا دیے ہیں، جو بظاہر جہادیوں کی طرف سے بنائے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
لائپزگ، اکتوبر سن دو ہزار سولہ
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
آنسباخ، جولائی سن دو ہزار سولہ
جولائی میں پناہ کے متلاشی ایک شامی مہاجر نے آنسباخ میں ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے کنسرٹ کے مقام پر جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس نے قریب ہی خودکش حملہ کر دیا تھا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں وہ خود بھی مارا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Karmann
وُرسبُرگ، جولائی سن دو ہزار سولہ
اکتوبر میں ہی جرمن شہر وُرسبُرگ میں ایک سترہ سالہ مہاجر نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک ٹرین میں چار سیاحوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں یہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand
ڈوسلڈورف، مئی سن دو ہزار سولہ
مئی میں جرمن پولیس نے تین مختلف صوبوں میں چھاپے مارتے ہوئے داعش کے تین مستبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے دو جہادی ڈوسلڈوف میں خود کش حملہ کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij
ایسن، اپریل سن دو ہزار سولہ
رواں برس اپریل میں جرمن شہر ایسن میں تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سکھ ٹیمپل پر بم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
ہینوور، فروری سن دو ہزار سولہ
جرمنی کے شمالی شہر میں پولیس نے مراکشی نژاد جرمن صافیہ ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے پولیس کے ایک اہلکار پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اسے زخمی کر دیا تھا۔ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سولہ سالہ لڑکی نے دراصل داعش کے ممبران کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کارروائی کی تھی۔
تصویر: Polizei
برلن، فروری دو ہزار سولہ
جرمن بھر میں مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ برلن میں دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان مشتبہ افراد کو تعلق الجزائر سے تھا اور ان پر شبہ تھا کہ وہ داعش کے رکن ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اوبراُرزل، اپریل سن دو ہزار پندرہ
گزشتہ برس فروری میں فرینکفرٹ میں ایک سائیکل ریس کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس دوران شدت پسند حملہ کر سکتے ہیں۔ تب پولیس نے ایک ترک نژاد جرمن اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا، جن کے گھر سےبم بنانے والا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
8 تصاویر1 | 8
تھوماس ہالڈنوانگ نے اس موقع پر اس منصوبے کا دفاع کیا ہے، جس میں پیغام رسانی کے یا میسنجنگ سروس کی نگرانی کی بات کی گئی ہے، ’’ ٹیلیفون پر ہم سطحی طور پر ہونے والے لڑائی جھگڑوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ تاہم اصل معاملہ وہ فریب ہے، جو اکثر ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔‘‘
بی ایف وی کے سربراہ کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کا ساتھ دینے والے افراد اور خاص طور پر ان کے بچوں کے جرمنی واپس آنے کے بعد ادارے کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا یہاں ایک نئی دہشت گرد نسل تیار ہو رہی ہے؟